Responsive Ad Slot

test banner

Latest

epicks

DailyLife

dailylife

Pakistan

nature

World

world

Love

love

Viral

viral

Videos Collections

videos

Articles Collection

articles

سنہرا اسلامی دور: خلیفہ ہارون الرشید کی زندگی کی کہانی، کتنی حقیقت، کتنا افسانہ

No comments



ہارون الرشید وہ خلیفہ ہیں جن کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ مشہور داستان ’الف لیلی‘ کے خلیفہ۔ مصنف ٹینیسن کے نیک دل ہارون الرشید۔۔۔ لیکن ہم اُن کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ ہمارے خیال میں ہم جانتے ہیں کہ ان کا دور خلافت کا ’سنہرا دور‘ تھا۔

ہارون الرشید کی تخت نشینی ہر اُن کی سلطنت وسطیٰ ایشیا سے لیبیا تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس دور کے بارے میں ٹینیسن نے لکھا ’ایک اچھا وقت، ایک اچھی جگہ کیونکہ یہ نیک ہارون الرشید کے عروج کا زمانہ تھا۔‘

لیکن وہ دور کتنا اچھا تھا؟ اس دور کے ’سنہرے‘ ہونے کا تصور بہت بعد میں پیدا ہوا اور یہ شاید خلافت کی انتہائی الجھی ہوئی 600 سالہ تاریخ کو ایک نقطے پر مرکوز کرنے کا طریقہ ہے۔ ان 600 سو برسوں میں سنہ 786 سے سنہ 809 تک ہارون الرشید کا دورِ خلافت 20 برسوں سے کچھ زیادہ ہے۔

مجھ سمیت بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ فنون لطیفہ، سائنس اور ادب میں بہت سا بہترین کام ہارون الرشید کے بعد ابھی آنا تھا۔

ہمارے نزدیک ہارون الرشید اور بغداد کا نام ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان کا بغداد ہہت زبردست جگہ رہی ہو گی، بالکل اس طرح جیسے ’الف لیلی‘ میں پیش کی جاتی ہے۔ لیکن وہ حقیقت میں کیسا تھا؟ اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ ہارون الرشید کے بغداد کا اب کچھ بھی نہیں بچا۔

لیکن ہم جانتے ہیں کہ خلافت کے دور کے آخری دس برسوں میں ان کا پسندیدہ شہر شام کا علاقہ رقعہ تھا جو بغداد سے شمال میں خلافت کی بازنطینی سلطنت کے ساتھ ملنے والی شمال مغربی سرحد کے قریب واقع تھا۔

ماہرین آثار قدیمہ نے اب رقعہ میں صرف محلات ہی نہیں بلکہ فیکٹریاں بھی دریافت کی ہیں۔ آٹھویں صدی میں فیکٹریوں کا تصور یقیناً پُرجوش کر دینے والا ہے۔ لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں کہ وہاں صنعت کو فروغ دینے میں ہارون الرشید کا خود کتنا ہاتھ تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ ہارون الرشید کے بارے میں ہم کہانیوں سے جو جانتے ہیں وہ اس سے مختلف ہے جو قرونِ وسطیٰ کی تاریخ کی کتابوں سے ہمیں پتا چلتا ہے اور شاید جدید دور آثار قدیمہ کی دریافتیں ہمیں کچھ مزید نیا بتائیں۔



قرون وسطیٰ کی دستاویز پڑھیں تو ہارون الرشید اپنی زیادہ تر بالغ زندگی میں ایک کمزور انسان نظر آتے ہیں جن کے ہاتھوں سے خلافت جاتے جاتے بچی تھی، جو اپنی والدہ اور اہلیہ زبیدہ کے زیرِ اثر تھے اور جن کی حکومت کا زیادہ تر انتظام بیوروکریسی چلا رہی تھی جو بارمکید خاندان کے زیرِ اثر تھی۔

اپنے دور حکومت کے آخری حصے میں انھوں نے معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی اور بارمکید خاندان (برمکیان) کو جیل میں پھینک دیا اور اپنے پسندیدہ جعفر کو قتل کر دیا۔ لیکن وہ مستقبل کی اچھی منصوبہ بندی نہیں کر سکے۔

وراثت کے باقاعدہ نظام کی عدم موجودگی میں انھوں نے خلافت کا عہدہ اپنے اور زبیدہ کے بیٹے امین کو اور آدھی سلطنت امین کے سوتیلے بھائی مامون کو دینے کا وعدہ کیا جو ایک لونڈی کے بیٹے تھے۔

اُن کی موت کے بعد دونوں بھائیوں میں جنگ چھڑ گئی اور بغداد کھنڈر کا نقشہ پیش کرنے لگا۔

مامون نے امین کو مروا کر تخت پر قبضہ کر لیا اور آئندہ کے لیے ایک مثال قائم کر دی۔ ان واقعات کی روشنی میں تاریخ کے کردار ہارون الرشید کی سیاسی میراث کو شاندار نہیں کہا جا سکتا اور اگر ان کا سنہرا دور تھا، تو وہ بہت مختصر تھا۔ اُن کا اپنی عمر کی 40 کی دہائی میں انتقال ہو گیا تھا۔

لیکن داستان ’الف لیلی‘ کا ابدی کردار ہارون الرشید ایسے معلوم ہوتا ہے کہ ہارون الرشید کی موت کے کچھ عرصے کے بعد منظر پر آیا تھا۔ یہ یہی وہ ہارون ہے جو ہماری یادوں میں زندہ ہے۔

وہ ان اچھے دنوں کی یادیں ہیں جو کبھی تھے ہی نہیں، لیکن شاید ہو بھی سکتے تھے۔ ماضی کئی بار آگے چل کر بُرے وقتوں میں امید کی کرن بن کر بھی سامنے آتا ہے۔ وہ نہ صرف ایک نیک دل حکمران ہیں بلکہ وہ سب کچھ کرتے ہیں جو ایک حکمران مہذب معاشرے کے قیام کے لیے کرتا ہے۔

وہ دانشوروں اور شعرا کے سرپرست ہیں اور سب سے بڑھ کر وہ ایک رومانوی ہیرو ہیں، ایک نرم دل اور خوبصورتی کے دلدادہ انسان، خاص طور پر ایسی خوبصورت لونڈیوں کے جو ہوشیار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں اور جنھیں موسیقی اور شاعری پر دسترس حاصل تھی۔



ہارون الرشید اور ان کی اہلیہ کی خواب گاہ کا ایک منظر جب دورانِ نیند ہارون کی اہلیہ نے ڈرا دینے والا ایک خواب دیکھا

وہ ہیار کرنے والے شوہر ہیں، ان کی بیوی بھی ان سے پیار کرتی ہے۔ زبیدہ نے، جو ذہین، سخی اور نیک عورت ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ میں صاحبِ حیثیت تھیں، ہر اچھے بُرے وقت میں اُن کا ساتھ دیا۔

انھیں نے بڑے بڑے فلاحی کام کیے خاص طور پر مکہ اور مدینہ کے راستے پر ایسے پراجیکٹس بنوائے اور جنھیں اپنی انفرادی حیثیت میں اچھے الفاظ میں اور پیار سے یاد کیا جاتا ہے۔

یہ ہارون الرشید آج بھی زندہ ہیں اور صرف کہانیوں میں نہیں بلکہ طویل عرصے سے عرب ٹی وی چینلوں پر نشر ہونے والے ڈراموں میں بھی، جو یوٹیوب پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

ٹی وی کے ہارون الرشید، ان کے اہلخانہ، درباریوں اور رعایا کو ان ڈراموں میں اپنے جذبات کو پرکھنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کے المیوں کا سامنا کرتے ہیں، ان کی وفاداری کا امتحان لیا جاتا ہے۔ وہ تشدد سے بھرپور ایک انتہائی دغاباز ماحول میں جی رہے ہیں۔ لیکن اپنی زندگی کے حوادث سے نمٹنے میں اور اس دوران زندگی میں سمجھوتے کرتے ہوئے وہ آرٹ اور اخلاقی حُسن کو جنم دیتے ہیں۔

ہارون الرشید اور ان کے دور کے لوگوں کی ٹی وی پر دکھائی جانے والی یہ تصویر آج کے عربوں کو اصل میں آئینہ دکھانے کے مترادف ہے۔ قرون وسطیٰ کی کہانیوں اور ٹی وی کے ہارون میں کچھ چیزیں مشترک بھی ہیں۔ بالکل ویسے جیسے شیکسپیئر کے تاریخ پر مبنی ڈراموں کے کردار۔ وہ زندگی کے ان ڈراموں، امکانات اور نظریات کا مرکز ہیں جن سے ہم سب مانوس ہیں۔

ہم تاریخ کے ہارون الرشید سے کہانیوں کے ہارون الرشید تک کیسے پہنچے اور کیا وہ ایک ہی انسان ہیں؟ تواریخ متفق ہیں کہ ہارون الرشید ’ممیز بوائے‘ تھے۔

ان کی والدہ، خیزران غلام کنیز تھیں جن سے ان کے والد خلیفہ المہدی نے، جو ایک بھرپور شخصیت کے مالک تھے، انتہائی غیر روایتی عمل میں انہیں آزاد کر کے شادی کر لی تھی۔

اس رومانوی آغاز کے بعد حالات خرابی کی طرف جانا شروع ہو گئے۔ المہدی کا کم عمری میں انتقال ہو گیا۔ ان کے خیزران سے دو بیٹے تھے جنھوں نے باری باری خلیفہ بننا تھا۔



ہارون الرشید عہد نوعمری میں

ہمیں نہیں معلوم اس وقت ان دونوں کی درست عمر کیا تھی لیکن اندازہ ہے کہ ان عمریں 20 برس کے آس پاس تھیں۔ ان کے نام پیغمبروں (حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون) پر رکھے گئے تھے جو کہ اچھا شگون ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ان دونوں میں ایک دوسرے کے لیے نفرت پیدا ہو گئی تھی۔

موسیٰ کا ایک چھوٹا بیٹا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ ان کے بعد خلافت اس بچے کو ملے اور انھوں نے ہارون کے ساتھ ولی عہد کا سلوک کرنے کی بجائے انھیں ہراساں کرنا شروع کر دیا۔

ہارون کی زندگی خطرے میں تھی۔ اس موقع پر خیزران آگے بڑھیں اور معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ وہ خلیفہ المہدی کی زندگی میں بھی بااختیار رہی تھیں لیکن موسیٰ نے ان کی بھی توہین کی اور انھیں خواتین کے معاملات سے نمٹنے اور ریاست کے معالات سے دور رہنے کے لیے کہا۔

یہ ذاتی لڑائی نہیں تھی بلکہ ان مفادات کا ٹکراؤ تھا جو المہدی کے دنوں میں سر اٹھا چکے تھے۔ خیزران اور بارمکید خاندان نے مل کر موسیٰ کو تخت سے اتار کر ہارون کو خلیفہ بنانے لیے سازش شروع کر دی۔

موسیٰ کا جلد ہی انتقال ہو گیا۔ کچھ حوالے خیزران پر ان کو زہر دینے کا الزام لگاتے ہیں۔ ایک حوالے کے مطابق خیزران نے ایک کنیز کے ذریعے موسیٰ کے منہ پر تکیہ رکھ کر ہلاک کروایا تھا۔ لیکن ان کے مقابلے میں ایک غیردلچسپ روایت کے مطابق موسیٰ کا انتقال پیٹ کے السر کی وجہ سے ہوا تھا۔



موسیٰ کی ہلاکت سے ہارون کی بجائے دراصل بارمکید خاندان کا دور شروع ہوا۔ بارمکید اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے آباؤ اجداد کا تعلق ایران سے تھا۔ یہ خاندان ماضی میں وسطی ایشیا میں بدھ مت کی ایک بڑی عبادت گاہ کا نسل در نسل نگران ضرور رہا تھا، لیکن اب وہ لوگ مقامی رنگ میں ڈھل چکے تھے اور عربی زبان بولنے والے مسلمان تھے، خلافت کے حکومتی ڈھانچے میں اپنی جگہ بنا چکے تھے اور اپنی حیثیت قائم رکھنا چاہتے تھے۔

وہ ماہر ’سٹیٹسمین‘ تھے جو اپنے آقا کی زندگی کا درد اپنے سر لینا جانتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ انتہائی دولت مند اور کھلے دل کے مالک تھے اور وسیع پیمانے پر وفاداریاں خریدنا ان کے لیے مشکل کام نہیں تھا۔

بارمکید خاندان کی ایک عورت نے ہارون کو اپنا دودھ بھی پلایا تھا۔ اس اعتبار سے بارمکید خاندان کے ساتھ ان کا رشتہ بھی تھا اور اس زمانے میں دودھ کا رشتہ خون کے رشتے کی طرح مضبوط ہی سمجھا جاتا تھا۔

اس کے علاوہ بارمکید خاندان کے ایک بزرگ یحیٰ ہارون کے استاد اور سرپرست بھی رہے تھے۔ ہارون ان کو والد کہہ کر مخاطب ہوتے تھے۔ یحیٰ اُن کے وزیر بن گئے اور یحیٰ کے دو بیٹوں نے باقی ذمہ داریاں آپس میں بانٹ لیں۔

ہارون کا رضائی بھائی فضل قابل اعتبار اور لائق تھا جبکہ جعفر ذہین اور دلکش شخصیت کا مالک تھا اور ہارون کا سب سے قریبی دوست بن گیا۔

ان گہرے خاندانی رشتوں اور جذباتی تعلقات کو دیکھتے ہوئے یہ بات عجیب نہیں لگتی کہ ہارون الرشید کے دور کی کہانی فیملی ڈرامہ کے طور پر لکھی گئی ہے۔ اس کہانی کا ہر واقعہ اتنے مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ ان میں ٹھوس شواہد تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔

لیکن یہ تمام کہانیاں خاندانی رشتوں کی کہانیوں کی طرز پر بیان کی گئی ہیں جن میں مرکزیت شخصیات، احساسات، جذبات، حسد، خوف اور محبت کے نفرت میں بدلنے کو حاصل ہے۔



موسیٰ کی ہلاکت کے بارے میں بھیانک روایات اس کی ایک مثال ہے۔ ایک اور مثال یہ سوال ہے کہ ہارون کیوں فضل اور یحیٰ کے خلاف ہو گئے اور انھوں نے جعفر کو کیوں مروایا؟

نفسیات کے نقطہ نظر سے اس کی ایک اچھی وضاحت یہ ہے کہ ہارون کو محسوس ہونے لگا تھا کہ بارمکید خاندان پر انحصار کی وجہ سے وہ اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتے تھے اور گھٹن کا شکار ہونے لگے تھے اور دوسرا یہ کہ انھیں بارمکید خاندان خاص طور پر جعفر کی شہرت کھٹکنے لگی تھی۔

اس کے استعارے کے طور پر ایک کہانی بیان کی جاتی ہے کہ ہارون نے بارمکید خاندان پر حاوی ہونے کی کوشش کی اور جعفر کو اپنے بس میں کرنے کے لیے پہلے خاموشی سے اس کی اپنی بہن عباسہ سے شادی کروا دی اور پھر دونوں کو اکٹھے سونے سے منع کر دیا۔

ظاہر ان دونوں نے اس حکم کی خلاف ورزی کی اور ہارون نے اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے جعفر کو مروا دیا۔ مؤرخین صدیوں سے اس کہانی کو جھوٹ تو کہہ رہے ہیں لیکن وہ خود بھی اس دوران بارمکید خاندان کے زوال کی کوئی سیاسی طور پر قابل قبول وضاحت دینے میں کامیاب نھیں ہوئے۔

تاریخ کے اعتبار سے ایک حقیقی وضاحت ان کے بیٹے امین کے انجام کی کہانی ہے۔

بالکل اسی طرح جیسے موسیٰ نے ہارون کے ساتھ وعدہ خلافی کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو وارث قرار دے دیا تھا بالکل اسی طرح امین نے خلافت اپنے بیٹے کی بجائے اپنے بھائی مامون کو دینے کا سر عام کیا گیا وعدہ توڑ دیا۔

بارمکید خاندان خاندان کے ساتھ اقتدار کی طویل شراکت داری کے دوران خلیفہ ہارون الرشید کے لیے ایک بڑا سیاسی پراجیکٹ اپنے بیٹوں کو اقتدار کی منتقلی کا تھا۔ لیکن یہ پراجیکٹ بُری طرح ناکام ہو گیا۔

یہ انسانی فطرت یا کم سے کم اس کہانی کے کرداروں کی فطرت کے خلاف تھا۔ ایک بار پھر اس باب کو بھی استعارتاً ایک کہانی کے ذریعے بیان کیا جاتا ہے جس میں سوال یہ ہے کہ اخلاقی طور پر کمزور انسان کو اقتدار منتقل کرنے کا انجام کیا ہوتا ہے؟

کہا جاتا ہے کہ جس رات زبیدہ اپنے بیٹے امین کے ساتھ حاملہ ہوئیں انھوں نے خواب دیکھا جس میں تین عورتیں اُن کے پاس آ کر بیٹھ جاتی ہیں اور ان کے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر بتاتی ہیں کہ ان کا بیٹا کیسا ہو گا۔ ان عورتوں نے بتایا کہ وہ بیکار، دغاباز اور بیوقوف ہو گا۔

جس رات امین کی پیدائش ہوئی وہی تینوں خواتین دوبارہ اُن کے خواب میں آئیں اور اپنی پیشینگوئی دہرائی۔ جس رات انھوں نے امین کا دودھ چھڑوایا یہی خواتین آخری بار ان کے خواب میں آئیں اور کہا کہ اس کے عیب اس کے زوال اور موت کا باعث بنیں گے۔

نجومیوں کے تمام تر خوش کُن زائچوں اور امین کی اعلیٰ تریبت کے باوجود وہ پیشینگوئیاں درست ثابت ہوئیں۔ اس کہانی کا سبق بتایا جاتا ہے کہ انسانی کردار اس کا نصیب ہوتا ہے۔ لیکن اس کا اس سے الٹ مطلب بھی نکالا جا سکتا ہے کہ اپنے نصیب کا علم انسان کا کردار بنا یا بگاڑ سکتا ہے۔

یہ عہد کہ وہ اقتدار اپنے بھائی کو منتقل کریں گے پہلی بار امین سے پانچ برس کی عمر میں لیا گیا تھا، پھر 15 سال کی عمر میں۔ جب 20 برس کی عمر کے کچھ عرصے بعد انھیں اقتدار ملا تو اس عہد کو توڑنے کی منصوبہ بندی کرنے کا انھیں بہت وقت مل چکا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں طاقت حلف کی پابند نہیں تھی۔ قانون کا عمل دخل تو اس سے بھی کم تھا۔ ہر خلیفہ خود طاقت حاصل کرتا اور اسے شکل دیتا تھا۔ تو ہارون نے خود بارمکید کی موجودگی میں اور ان کے بعد طاقت سے کیسے نمٹا؟ ان کے حاصل کرنے کے لیے طاقت تھی کتنی؟

انھوں نے خاموشی اختیار کرتے ہوئے بارمکید خاندان کو ریاست کے معاملات چلانے دیے۔ یعنی انھوں نے اپنے والد سے ورثے میں ملی طاقتور بیوروکریسی کو اپنا کام جاری رکھنے دیا۔

لیکن انھوں نے کچھ نئی چیزیں بھی متعارف کروائیں۔ انھوں نے اس خیال کو فروغ دیا کہ خلافت کو اپنے آپ کو ایک مذہبی منصب کے طور پر ثابت کرنا ہے اور انھوں نے اس خیال کو مقبول کرنے کے لیے کام کیا۔


ہارون الرشید کا مقبرہ

وہ مستقل مسیحی بازنطینی سلطنت کے خلاف جہاد پر مشن روانہ کرتے رہے اور کئی بار خود بھی اُن کی قیادت کی۔ انھوں نے کئی بارحج کیا اور مقدس مقامات پر قیمتی چڑھاوے چڑھائے۔ یہی طریقہ زبیدہ کا بھی تھا جنھوں نے مکہ اور مدینہ میں پانی کی سپلائی کی ایک سکیم کے لیے اور ان دونوں شہروں کے راستے میں پینے کے پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے خطیر رقم خرچ کی۔


یہ زبیدہ ہی کی مثال تھی جس کے بعد اسلامی ریاستوں میں خیرات کے فلسلفے کی تشہیر کے لیے بڑے بڑے فلاحی ادارے قائم کرنا معمول بن گیا۔ حکمران خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک عورت کے طور پر ریاست کے اچھے کاموں میں اس کی شناخت بننے میں زبیدہ اپنے وقت سے بہت آگے تھیں۔ یہ ایک ایسا اہم سیاسی کردار تھا جو آنے والے وقتوں میں بھی خواتین ادا کرتی رہیں۔


ریاست کاری کے نقطہ نظر سے اس میں ہارون کا حصہ علامتی مگر بھرپور تھا۔ ہارون اور زبیدہ نے جو مثال قائم کی وہ صدیوں تک آنے والے مسلمان حکمرانوں کے لیے مثال بن گئی۔ یعنی کسی بھی ریاست کا جواز اس کے کاموں سے پیدا ہوتا ہے۔


اس کا مطلب صرف فلاحی کام اور جہاد نہیں تھا بلکہ عدل و انصاف کی فراہمی کو ریاستی کی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اس شعبے کو علامتی سرپرستی میں لے کر قاضی کے عہدے کا قیام بھی اس میں شامل تھا۔


ہارون کی زندگی میں بحیثیت حکمران عدل، خاندان اور سیاست ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اسی لیے ان کی میراث میں نجی اور سرکاری کو الگ کرنا مشکل ہے۔ اپنے والد کی طرح انھیں موسیقی اور شاعری پسند تھی۔ ان کی ایک سوتیلی بہن اور سوتیلے بھائی دونوں پیشہ وارانہ معیار کے موسیقار اور شاعر تھے۔ ان کی نظمیں آج بھی پڑھی جاتی ہیں۔


آرٹ ایک نجی شوق تھا۔ لیکن یہ ناممکن تھا کہ کوئی صاحب حیثیت اس کے فروغ میں حصہ نہ ڈالے اور اس کی نمائش نہ کرے چاہے صرف اپنے دربار میں اشرافیہ کے لیے ہی ہو۔


ہارون نے فنون لطیفہ کی شاہی سرپرستی کی، یہ روایت جاری رکھتے ہوئے انھیں عوامی سطح پر بھی قبولیت دی۔ یہ ایک اور ایسی روایت تھی جو صدیوں تک قائم رہی۔


تو حتمی تجزیے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہارون اس مقام کے حقدار ہیں جو انھیں لوگوں کی یادوں(سوشل میموری) میں دیا جاتا ہے۔ انھوں نے تہذیب کے ابدی نظریے کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔


ہارون اور زبیدہ نے آنے والے حکمرانوں کو بتایا کہ کس طرح ریاستیں (گرینڈ جیسچرز) بڑے بڑے کام کر کے عوام کے ساتھ تعلق قائم کر سکتی ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہارون، زبیدہ، ان کے بچوں اور بارمکید خاندان کی زندگی کی کہانیوں نے صدیوں تک لوگوں کو غور و فکر کے لیے مواد فراہم کیا اور انٹرنیٹ اور ٹی وی کی مہربانی سے آج بھی کر رہی ہیں۔

’1965 کی جنگ ایک سڑک کی وجہ سے شروع ہوئی‘

No comments



حکمت عملی کے اعتبار سے یہاں پاکستان بہت فائدے میں تھا کیونکہ اس علاقے سے محض 26 میل کے فاصلے پر ہی ان کا ریلوے سٹیشن بدين تھا

بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ سنہ 1965 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ کی بنیاد رن آف کچھ کے ویران علاقے میں ہونے والی ایک چھوٹی سی جھڑپ سے رکھی گئی تھی۔

یہ پورا علاقہ ایک طرح کا صحرا تھا جہاں کچھ چرواہے کبھی کبھار اپنی بھیڑ بکریاں چرانے جایا کرتے تھے یا بھولے بھٹکے کبھی پولیس والوں کا دستہ گشت کر لیا کرتا تھا۔

حکمت عملی کے اعتبار سے یہاں پاکستان بہت فائدے میں تھا کیونکہ اس علاقے سے محض 26 میل کے فاصلے ہی پر ان کا ریلوے سٹیشن بدين تھا جہاں سے بذریعہ ریل کراچی کا فاصلہ صرف ایک 113 میل تھا۔ پاکستان کی آٹھویں ڈویژن کا یہیں پر ہیڈ کوارٹر تھا۔

دوسری طرف بھارت کی جانب سے کچھ کے میدان میں پہنچنے کے تمام راستے تقریباً ناقابلِ رسائی تھے۔ سب سے نزدیک 31ویں بریگیڈ احمد آباد میں تھی جہاں سے نزدیکی ریلوے سٹیشن بھوج سے 180 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ بھوج یوں تو اس علاقے کا ایک چھوٹا شہر تھا لیکن متنازع پاکستانی سرحد سے 110 میل کے فاصلے پر تھا۔

جھگڑے کی ابتدا اس وقت ہوئی جب بھارتی سکیورٹی فورسز کو پتہ چلا کہ پاکستان نے ڈینگ اور سرائي کو ملانے کے لیے 18 میل طویل ایک کچی سڑک بنا لی ہے۔ یہ سڑک کئی مقامات پر بھارتی سرحد کے ڈیڑھ میل اندر تک جاتی تھی۔ بھارت نے اس مسئلے پر مقامی اور سفارتی سطح پر احتجاج کیا تھا۔

پاکستان نے اس کے جواب میں 51 ویں بریگیڈ کے کمانڈر بریگیڈیئر اظہر کو اس علاقے میں مزید جارحانہ گشت کرنے کا حکم دے دیا۔ ادھر مارچ کے آتے آتے بھارت نے بھی كجركوٹ کے قریب نصف کلومیٹر جنوب میں سردار چوکی بنالی۔



بھارت کو اس وقت اور شرمسار ہونا پڑا جب پاکستان نے ملکی اور غیر ملکی صحافیوں کو بلا کر بھارتی فوجیوں کے چھوڑے ہوئے ہتھیاروں اور گولہ بارود دکھائے

پاکستان کے کمانڈر میجر جنرل ٹکّا خان نے بریگیڈیئر اظہر کو حکم دیا کہ حملہ کر کے بھارت کی نئی بنی سردار چوکی کو تباہ کر دیا جائے۔

نو اپریل کی صبح دو بجے پاکستانی حملہ شروع ہوا۔ انھیں سردار چوکی، جنگل اور شالیمار نام کی دو مزید بھارتی چوکیوں پر قبضہ کرنے کا حکم بھی دیا گیا۔

شالیمار چوکی پر تعینات سپیشل ریزرو پولیس کے جوان، مشین گن اور مورٹر فائر کے کور میں آگے بڑھتے ہوئے پاکستانی فوجیوں کا مقابلہ نہیں کر پائے۔ تاہم سردار چوکی پر تعینات پولیس اہلکاروں نے زبردست مزاحمت کی۔ 14گھنٹوں کے زبردست حملے کے بعد بریگیڈیئر اظہر نے گولہ باری روکنے کا حکم دیا۔

اس دوران سردار چوکی کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار دو میل واپس وجیو كوٹ چوکی پر چلے آئے۔

پاکستانیوں کو اس کا پتہ نہیں چلا اور انھوں نے بھی اپنے فوجیوں کو واپس اسی جگہ پر واپس کرنے کا حکم دیا جہاں سے انھوں نے صبح حملہ شروع کیا تھا۔

شام کو واپس آنے والے جوانوں کو احساس ہوا کہ سردار چوکی پر کوئی بھی پاکستانی فوجی نہیں ہے۔ انھوں نے شام ہوتے ہوتے بغیر لڑے دوبارہ اس چوکی پر قبضہ کر لیا۔

بی سی چکرورتی نے اپنی کتاب ’ہسٹری آف انڈو پاک وار، 1965‘ میں تبصرہ کیا ہے کہ ’پاکستان کی 51 ویں بریگیڈ کے کمانڈر نے اتنے ہی اناڑی پن سے آپریشن کو ہینڈل کیا جتنا ہندوستان کی 31 ویں انفینٹري بریگیڈ کے بریگیڈیئر پہلجاني نے۔‘



24 اپریل کو بریگیڈیئر افتخار جنجوعہ کی قیادت میں پاکستانی فوجیوں نے سیرا بیت پر قبضہ کر لیا

بھارت نے صورت حال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے میجر جنرل ڈن کو ممبئی سے کچھ بھیجا۔

پاکستان نے بھی اس دوران مکمل آٹھویں انفینٹری ڈویژن کو کراچی سے پاکستانی شہر حیدرآباد بلا لیا۔

اس وقت علاقے میں بریگیڈ کے کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل سندرجي نے پولیس کی وردی پہن کر علاقے کا معائنہ کیا اور مشورہ دیا کہ بھارت کو كجركوٹ پر حملہ کر دینا چاہیے، لیکن حکومت نے ان کے مشورے کو تسلیم نہیں کیا۔

بعد میں یہی سندرجي بھارت کے آرمی چیف بنے اور اسی علاقے میں انھوں نے سنہ 1987 میں مشہور براس ٹیك فوجی مشق کی جس کی وجہ سے بھارت اور پاکستان کی فوجیں تقریباً جنگ کے دہانے پر پہنچ گئیں۔

اس درمیان دلچسپ بات یہ ہوئی کہ پاکستانی فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل اصغر خان نے بھارتی فضائی فوج کے سربراہ ایئر مارشل ارجن سنگھ کو فون کر کے پیشکش کی کہ دونوں ممالک کی فضائیہ اس جنگ سے اپنے آپ کو الگ رکھیں۔

اگرچہ اصغر خان نے اپنی سوانح عمری ’دی فرسٹ راؤنڈ‘ میں اس واقعے کا ذکر نہیں کیا لیکن بعد میں یہ قیاس آرائی کی گئی کہ شاید اسی کی وجہ سے جنگ شروع ہونے سے صرف دس روز قبل ایوب خان نے انھیں ان کے عہدے سے ہٹا کر ایئر مارشل نور خاں کو پاکستانی ایئر فورس کا سربراہ بنا دیا تھا۔

24 اپریل کو بریگیڈیئر افتخار جنجوعہ کی قیادت میں پاکستانی فوجیوں نے سیرا بیت پر قبضہ کر لیا۔

انھوں نے اس کے لیے پوری دو ٹینک رجمنٹیں اور توپ خانے کا استعمال کیا اور بھارتی فوجیوں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔

اگلے دو دنوں میں بھارتی فوجیوں کو بیئر بیت کی چوکی بھی خالی کرنی پڑی۔


برطانیہ کی مداخلت سے دونوں فوجیں اپنے پرانے محاذ پر واپس چلی گئیں

بھارت کو اس وقت اور شرمسار ہونا پڑا جب پاکستان نے ملکی اور غیر ملکی صحافیوں کو بلا کر بھارتی فوجیوں کے چھوڑے ہوئے ہتھیاروں اور گولہ بارود دکھائے۔

بعد میں برطانیہ کی مداخلت سے دونوں فوجیں اپنے پرانے محاذ پر واپس چلی گئیں۔

فرخ باجوہ نے اپنی کتاب ’فرام کچھ ٹو تاشقند‘ میں لکھا کہ اس سے پاکستانی فوج کو کم سے کم محدود سطح پر ہی سہی، بھارتی فوج کی صلاحیت کو آزمانے کا موقع ملا۔

بھارت کے اس وقت کے ڈپٹی چیف جنرل كمارمگلم نے کہا: ’بھارت کے لیے کچھ کی لڑائی صحیح دشمن کے ساتھ غلط وقت پر غلط جنگ تھی۔‘ اس جنگ میں پاکستان ہندوستان پر بھاری پڑا لیکن اس کی وجہ سے ’پاکستان کو یہ غلط فہمی بھی ہو گئی اور اس کا انھیں بہت نقصان بھی ہوا کہ کشمیر کی جنگ ان کے لیے كیک واک ثابت ہوگی۔‘

پاکستان میں بھارت کے سابق ہائی کمشنر شنکر باجپئي کاکہنا ہے کہ یہ تصادم بھارت کے لیے نعمت ثابت ہوا کیونکہ اس سے وہ پاکستان کے عزائم سے باخبر ہو گیا۔

تین ماہ بعد جب پاکستان نے آپریشن جبرالٹر کا آغاز کیا تو ہندوستانی فوج ان سے نمٹنے کے لیے پہلے سے تیار تھی۔

شاہ محمود قریشی آف ملتان

No comments



پاکستان کے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود حسین قریشی سہروردی نہ تو اپنے خاندان کے پہلے ’شاہ محمود‘ ہیں اور نہ ہی اپنے خاندان میں اعلیٰ عہدے پر متمکن ہونے والے پہلے فرد ہیں۔ شیخ بہاؤالدین زکریا قریشی ملتانی اور ان کے پوتے شاہ رکن عالم کی اولاد میں سے کئی نامی گرامی اور صاحبانِ اقتدار گزرے ہیں۔

1857 کے غدر(جنگ آزادی) کے وقت اس خاندان کے سربراہ کا نام بھی شاہ محمود قریشی تھا۔ انھوں نے سکھوں کے خلاف انگریزوں کا ساتھ دیا۔ حریت پسند احمد خان کھرل کی گرفتاری اور اس علاقے میں پھیلی بغاوت کو فرو کرنے میں بھی انھوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔

اس خاندان کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ علمائے ہندوستان کے شیخ الاسلام کا سب سے بڑا عہدہ بھی ان کے پاس رہا۔ سکھوں اور نواب مظفر خان آف ملتان کی لڑائی میں اس خاندان نے نواب مظفر خان کا ساتھ دیا اور جب نواب مظفر خان اپنے نوجوان بیٹوں کے قتل کے بعد شہید ہوئے تو ان کی وصیت کے مطابق انھیں بہاؤالدین زکریا ملتانی کے مزار کی چوکھٹ کے نیچے سپرد خاک کیا گیا۔

مزار پر حاضری دینے والا ہر شخص اس قبر کے اوپر پاؤں رکھ کر مزار میں داخل ہوتا ہے۔



بہاؤالدین زکریا قریشی ملتانی اور ان کے پوتے شاہ رکن عالم کی اولاد میں سے کئی نامی گرامی اور صاحبانِ اقتدار گزرے ہیں

سر لیپل گریفن کی مشہور کتاب پنجاب چیفس کا ترجمہ سید نوازش علی نے ’تذکرہ رؤسائے پنجاب‘ کے نام سے کیا۔

قریشی خاندان کے باب میں (صفحہ 498) مذکور ہے، ’1857 میں مخدوم شاہ محمود نے گورنمنٹ کی بڑی اچھی خدمت انجام دی۔ یہ صاحب کمشنر بہادر کو ان تمام ضروری واقعات کی خبر دیتا رہا جو اسے معلوم ہوتے رہتے تھے۔‘

’ملتان میں بغاوت کرنے والی رجمنٹوں سے ہتھیار چھیننے کے موقع پر مخدوم ممدوح نے معہ اپنے مریدوں کے صاحب کمشنر بہادر کا ساتھ دیا۔‘

’ان خدمات کے صلے میں مخدوم شاہ محمود کو تین ہزار روپیہ نقد انعام ملا(صفحہ 499)، زیارت کے نقد وظیفہ کا تبادلہ 1780 روپے مالیت کی ایک اراضی جاگیر کے ساتھ کر دیا گیا یہ جاگیر، ان 550روپیہ مالیت کے آٹھ چاہات (کنویں) کے علاوہ تھی جو مخدوم کو علی الدوام عطیہ کے ملے تھے۔ پھر 1860 میں حضور وائسرائے بالقابہ کی تشریف آوری لاہور کے موقع پر مخدوم کی ذات خاص کے لیے ایک باغ 150روپیہ سالانہ آمدنی کا عطا ہوا جو بھنگی والا باغ مشہور ہے۔‘

اس خطے کی تاریخ کا ایک اور اہم ترین موقع قیامِ پاکستان تھا۔ قیامِ پاکستان سے ایک سال پہلے 1946 کے معرکتہ آلارا انتخابات ہوئے جس میں قریشی خاندان نے یونینسٹ پارٹی کا ساتھ دیا۔



اس وقت کے گدی نشین مخدوم مرید حسین قریشی تھے جبکہ ان کے بھتیجے میجر عاشق حسین قریشی یونینسٹ پارٹی کےامیدوار تھے۔ قریشی اس وقت غلط کشتی پر سوار ہو گئے۔ یونینسٹ پارٹی کو شکست ہوئی۔ مسلم لیگ جیت گئی اور قیام پاکستان کی راہ ہموار ہو گئی۔

یہ وہی مرید حسین قریشی تھے جن کے صاحبزادے مخدوم سجاد حسین قریشی نے بہت محنت اور جانفشانی سے اپنے آباؤ اجداد کے مریدین کے سلسلوں کو زندہ کیا، خود بھی سیاسی طور پر متحرک رہے، ایم پی اے رہے پھر سینیٹر منتخب ہوئے اور بالآخر گورنر پنجاب بن کر صوبے کی اہم ترین سیٹ پر بیٹھ کر اپنے خاندان اور روحانی سلسلے کی ساکھ کو بڑھایا۔

ڈیوڈ گل مارٹن کی تحقیقی کتاب امپائر اینڈ اسلام میں سجادہ نشینوں اور پیروں کے حلقہ ارادت اور ان کی موروثی سیاست کا تفصیلی ذکر ہے۔

گل مارٹن لکھتے ہیں کہ سجادہ نشین بہاؤالدین زکریا کو انگریزی دربار میں بیٹھا دیکھ کر مقامی لوگ نہ صرف متاثر ہوئے بلکہ انگریزی سرکار کی امداد پرآمادہ بھی ہوئے تھے۔ انگریز سرکار نے سجادہ نشینوں اور رؤسا کو جاگیریں، انعام اور عہدے سیاسی بنیادوں پر ہی عطا کیے۔ اے سی بیلے کی تحقیق کے مطابق ’یہ رؤسا اپنے مذہبی رتبے اور سماجی مقام کی وجہ سے حکومتی عہدیداروں اور عوام کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے تھے۔‘



قیام پاکستان سے ایک سال قبل 1946 کے انتخابات ہوئے جس میں قریشی خاندان نے یونینسٹ پارٹی کا ساتھ دیا

دراصل آج کی سیاست 1937 اور 1946 کی سیاست پر ہی تو مبنی ہے۔ تقریباً ہر ضلع میں وہی پرانے خاندانوں کی اولادیں اور ان کے دھڑے ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں۔

بیلے نے اس طریقہ سیاست کو ’سرپرستی کی سیاست‘ کا نام دیا تھا جس میں پورا دھڑا تھا۔ یہ کچہری سے لے کر ضلعے تک ایک دوسرے کی مدد کرتا ہے اسی لیے جب شاہ محمود قریشی پی ٹی آئی میں آتے ہیں تو ان کا پورا دھڑا اور ووٹ بنک ان کے ساتھ ہی اس پارٹی میں آ جاتا ہے۔

ایسا ہی یوسف رضا گیلانی آف ملتان کا حال ہے۔ ان کا دھڑا اور ووٹ بینک بھی جس پارٹی میں ان کا سربراہ جاتا ہے اسی کے ساتھ چلے جاتے ہیں۔ کسی بھی حلقے میں یہ جاننا مشکل ہے کہ سجادہ نشین کو کتنے ووٹ مذہب کی بنیاد پر ملتے ہیں اور کتنے سیاست کی بنیاد پر۔

مگر یہ جاننا آسان ہے کہ ایسے مذہبی اور سیاسی دھڑے حلقے کے کم از کم چوتھائی ووٹ بینک پر مشتمل ہوتے ہیں۔ باقی فلوٹنگ ووٹ ہوتا ہے جس گروپ یا پارٹی کی ہوا چلے اسے فلوٹنگ یا اُڑتے ہوئے ووٹ مل جاتے ہیں اور وہ اپنے مخالف کو ہرا دیتا ہے۔

سادہ اندازے کے مطابق دھڑئے کے 25 فیصد ووٹ کے ساتھ دیہی علاقوں میں 15 فیصد پارٹی ووٹ اور دس فیصد فلوٹنگ ووٹ ہوتا ہے۔

مخدوم سجاد قریشی کے فرزندارجمند اور موجودہ سجادہ نشین شاہ محمود قریشی بیرون ملک سے تعلیم حاصل کر کے آئے، ڈسٹرکٹ کونسل کا انتخاب لڑا، کامیاب نہ ہوئے بعد ازاں اپنے والد کی پیروی میں آئی جے آئی اور مسلم لیگ ن کے سرگرم رکن بن گئے۔

ایم پی اے بنے تو نواز شریف کابینہ میں صوبائی وزیر خزانہ کے عہدے پر بھی فائز ہوئے، ن لیگ سے اختلاف ہوا تو پیپلزپارٹی میں شامل ہو گئے۔

بینظیر بھٹو کے قریبی ساتھی رہے، ایک بار پنجاب پیپلزپارٹی کی صدارت کا تاج بھی انھیں پہنایا گیا۔ بینظیر کی وفات کے بعد آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی کی حکومت بنی تو انھیں وزارت خارجہ کا قلمدان سونپا گیا۔


ریمنڈ ڈیوس اور وزارتوں کی تقسیم کے مسئلے پر اختلاف ہوا تو انھوں نے نہ صرف وزارت چھوڑ دی بلکہ پیپلزپارٹی کو بھی خیر باد کہہ دیا

ریمنڈ ڈیوس اور وزارتوں کی تقسیم کے مسئلے پر اختلاف ہوا تو نہ صرف وزارت چھوڑ دی بلکہ پیپلزپارٹی کو بھی خیر باد کہہ دیا۔

دونوں بڑی جماعتوں میں رہنے کے بعد انھوں نے نئی اور ابھرتی ہوئی جماعت پاکستان تحریک انصاف میں دھوم دھڑکے سے شمولیت کا اعلان کر دیا اور یوں وہ عمران خان کے رفیق کار بن گئے۔

شاہ محمود قریشی پاکستان تحریک انصاف کی جہد مسلسل میں عمران خان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہے۔

حکومت بننے سے پہلے خیال یہ تھا کہ پی ٹی آئی میں پنجاب کے وزیراعلیٰ شاہ محمود قریشی ہوں گے مگر اندرونی سیاست نے کچھ ایسا کام دکھایا کہ پی ٹی آئی کے ایک آزاد امیدوار نے انھیں صوبائی نشست پر شکست دے دی اور یوں وہ وزارت اعلی کی دوڑ سے باہر ہو گئے تاہم عمران خان نے انہیں اپنی کابینہ میں پھر سے وزیر خارجہ کا عہدہ دے دیا۔

شاہ محمود قرشی ایماندار، قابل اور تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ تاہم وہ اپنے علاقائی اور سیاسی مخالفوں سے برسریپکار رہتے ہیں اور ان کے ساتھ کشیدگی کو ختم کرنے یا کوئی دیر پا معاہدہ کرنے کو تیار نہیں ہوئے۔



جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کی گروپنگ نے تو ساری تحریک انصاف کو تقسیم در تقسیم کر کے رکھ دیا

پیپلزپارٹی میں تھے تو یوسف رضا گیلانی سے جنوبی پنجاب اور ملتان کی چودھراہٹ پر جھگڑا رہتا تھا۔ تحریک انصاف میں آئے تو جہانگیر ترین اور جاوید ہاشمی سے پنجہ آزمائی رہی۔ جتنا عرصہ جاوید ہاشمی تحریک انصاف میں رہے، شاہ محمود قریشی ان کی وجہ سے اپ سیٹ ہی رہے۔

جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کی گروپنگ نے تو ساری تحریک انصاف کو تقسیم در تقسیم کر کے رکھ دیا۔ ان دنوں شاہ محمود قریشی وزیر اعظم عمران خان کی کچن کابینہ کا حصہ بھی ہیں اور وہ پاکستان کی قیادت کا اہم ترین متبادل بھی ہیں۔

شاہ محمود قریشی اپنے دھڑے کی سیاست دھڑلے سے کرتے ہیں۔ اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھتے ہیں اور اپنے گروہ کے مفادات کا بھرپور خیال رکھتے ہیں۔
پاکستان کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے وہ بہت متحرک ہیں، خوبصورت گفتگو اور شائستہ اندازِ بیاں ہے۔

وہ سوچ سمجھ کر اور چہرے کے مکمل اُتار چڑھاؤ کے ساتھ بات کرتے ہیں۔ ان کی احتیاط پسندی کے باوجود سعودی عرب کے حوالے سے ان کے بیان کو افراط و تفریط کا مظہر قرار دیا گیا اور سعودی عرب نے اس پر خاصی ناراضی کا اظہار کیا۔

اس سے پہلے کرتار پور راہداری کھلنے پر بھی ان کے بیان پر تنقید ہوئی تھی مگر دوسری طرف ان کی محنت اور دیانت ان کی خامیوں پر حاوی رہتی ہے۔

دیکھنا یہ ہو گا کہ قریشی خاندان کا یہ چشم و چراغ، گدی نشین اور ذہین و فطین کیا اپنے آباؤ اجداد کی طرح صرف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے گا یا کبھی ملک کا اصلی اور طاقتور حکمران بن کر اپنے خاندان کے بزرگوں سے بھی اونچا دنیاوی مقام حاصل کرے گا۔

1965 جنگ میں ’جب پاکستانی بمباری سے ڈر کر انڈین کمانڈر کھیتوں میں چھپ گئے‘

No comments

سنہ 1965 کی جنگ کے دوران لاہور محاذ پر انڈین فوجیوں کو ابتدائی کامیابی تو مل گئی تھی لیکن زمین پر حالات بہت اچھے نہیں تھے۔ میجر جنرل نرنجن پرساد کی 15 ڈویژن میں زبردست افراتفری پھیلی ہوئی تھی۔

مغربی کمان کے سربراہ جنرل ہربكش سنگھ کو جب وائرلیس پر جنرل نرنجن پرساد کا پیغام ملا کہ ان کی ڈویژن پر پاکستان کی دو ڈویژنز نے حملہ کیا ہے اور ان کی بریگیڈ کو اچّھوگل نہر سے سات کلومیٹر واپس گوسلگيال تک ہٹنا پڑا ہے، تو وہ حیران رہ گئے۔
انھوں نے جنرل نرنجن پرساد کو پیغام بھیجا کہ چاہے جو ہو جائے آپ اپنی پوزیشن سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ میں اور کور کمانڈر آپ سے ملنے آپ کے ٹھکانے پر ہی آ رہے ہیں۔

جنرل ہربكش سنگھ نے ڈرائیور کو جیپ کے پیچھے بیٹھنے کو کہا اور خود ڈرائیو کرنے لگے۔ جب وہ جی ٹی روڈ پر پہنچے تو وہاں کا نظارہ دیکھ کر ان کے ہوش اڑ گئے۔ ہر جگہ انڈین گاڑیاں جل رہی تھیں۔

سڑک پر پاکستانی جہازوں کی بمباری سے بڑے بڑے گڑھے بن گئے تھے اور پاکستانی طیارے بھی اوپر اڑ رہے تھے۔

جنرل ہربكش سنگھ اپنی سوانح عمری ان دی لائن آف ڈیوٹی میں لکھتے ہیں، ’ہم دیکھ رہے تھے کہ 15 ڈویژن کی گاڑیاں سڑک پر ادھر ادھر پڑی ہوئی تھیں۔ ان کے ڈرائیور انہیں چھوڑ کر بھاگ چکے تھے۔ بہت ٹرینوں کے تو انجن تک بند نہیں کیے گئے تھے۔ سڑک کے بیچو بیچ ایک ہتھیار بند گاڑی کھڑی ہوئی تھی۔ اس میں کوئی نہیں تھا لیکن چابی لگی ہوئی تھی۔ میں نے اسے سڑک سے ہٹوا کر کنارے لگوایا۔‘

ہربكش سنگھ کو ڈویژنل ملٹری پولیس کی ایک گاڑی گنے کے ان کھیتوں کے پاس لے گئی جہاں 15 ڈویژن کے کور کمانڈر میجر جنرل نرنجن پرساد پاکستانی بمباری سے بچنے کے لیے رو پوش تھے۔



میجر جنرل نرنجن پرساد کی وجہ سے 1965 کی جنگ میں بھارت کی کافی سبکی ہوئی

ہربكش سنگھ لکھتے ہیں، ’جب جنرل نرنجن پرساد مجھے ریسیو کرنے آئے تو ان کے جوتے کیچڑ سے بھرے ہوئے تھے۔ ان کے سر پر ٹوپی نہیں تھی اور انھوں نے داڑھی بھی نہیں بنائی ہوئی تھی۔ ان کی وردی پر ان کا عہدہ بتانے والے سارے نشانات غائب تھے۔ میں نے ان کو اس حال میں دیکھ کر براہ راست سوال کیا آپ ڈویژن کے جنرل افسر کمانڈنگ ہیں یا قلی؟ آپ نے داڑھی کیوں نہیں بنائی ہے اور آپ کی رینک کے بیج کہاں ہیں؟‘

ابھی یہ سوال جواب چل ہی رہے تھے کہ دو پاکستانی جنگی طیارے بہت نیچے پرواز بھرتے ہوئے ان کے سر کے اوپر سے گزرے۔ جنرل نرنجن پرساد نے جنرل ہربكش سنگھ کو پاس کی جھاڑی میں کھینچنے کی کوشش کی۔

ہربكش سنگھ نرنجن پرساد پر زور سے چلائے اور بولے ’دشمن کے جہازوں کی ہم میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ویسے بھی وہ ہمیں نہیں دیکھ پا رہے ہیں۔ وہ ان گاڑیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جنہیں آپ نے سڑک پر یوں ہی چھوڑ دیا ہے۔‘

جنرل ہربكش نے نرنجن پرساد سے پوچھا، ’آپ کے بریگیڈ کمانڈر کہاں ہیں؟‘ نرنجن پرساد نے آواز لگائی، ’پاٹھک ، پاٹھک ‘ جب پاٹھک وہاں پہنچے تو ان کا منہ چادر کی طرح سفید تھا۔

ہربكش نے ان سے پوچھا، ’آپ لوگ کہاں ہیں؟‘ نرنجن پرساد نے آواز لگائی ’پاٹھک، پاٹھک۔‘

جب پاٹھک وہاں پہنچے تو ان کا چیہرہ سفید تھا۔

پاٹھک نے کہا ‘وہ لوگ واپس آ رہے ہیں لیکن بہت لوگوں کے ہلاک ہو جانے کی وجہ سے وہ غیر فعال ہو گئے ہیں۔‘ ہربكش نے پوچھا، ’کتنے لوگ ہلاک ہوئے ہیں؟ پاٹھک نے جواب دیا 30 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

جنرل ہربكش سنگھ نے کہا، ’4000 میں سے صرف 30 افراد زخمی ہیں اور آپ کہہ رہے ہے مکمل بریگیڈ غیر فعال ہو گئی ہے؟‘

جنرل ہربكش سنگھ نے انہیں نئے سرے سے آگے بڑھنے کا حکم دیا۔ انھوں نے جنرل نرنجن پرساد سے کہا کہ وہ بریگیڈ کی پیش رفت پر نظر رکھیں اور اگلی صبح کور کمانڈر کو آپریشن کی اطلاع دیں۔



سات ستمبر کو نرنجن پرساد اپنی بریگیڈ کی پوزیشن جاننے کے لیے اے ڈی سی کے ساتھ ایک جیپ پر سوار ہو کر آگے بڑھے۔

ابھی وہ کچھ ہی دور گئے ہوں گے کہ ان پر پاکستانیوں نے میڈیم مشین گن سے فائر کیا۔ نرنجن پرساد اور ان کے ڈی سی گاڑی چھوڑ کر قریب کے کھیتوں میں چھپ گئے۔

تھوڑی دیر بعد انھوں نے واپس لوٹنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے انھوں نے پیچھے آنے والی جیپ کا استعمال کیا۔ ان جیپوں میں سوار لوگوں سے پیدل واپس آنے کے لیے کہا گیا۔ انھوں نے اپنی جیپ وہیں کھیتوں میں چھوڑ دی جس میں ان کا ایک بریف کیس رکھا ہوا تھا۔ اس میں کئی اہم کاغذات بھی تھے۔ جیپ پر ڈویژن کا جھنڈا اور سٹار پلیٹ بھی لگی ہوئی تھی۔

بعد میں یہ جیپ پاکستانی فوجیوں کے ہاتھ لگ گئی اور ریڈیو پاکستان نے بریف کیس میں رکھے کاغذات نشر کرنا شروع کر دیے۔ ان کاغذات میں جنرل ہربكش سنگھ کے خلاف فوجی سربراہ سے کی گئی شکایت بھی تھی۔



11 ویں کور کے کمانڈر، نرنجن پرساد کی اس غلطی کے لیے ان کا کورٹ مارشل کرنا چاہتے تھے لیکن جنرل چوہدری نے نرنجن پرساد سے استعفیٰ دینے کے لیے کہا۔ ان کی جگہ میجر جنرل موہندر سنگھ کو 15 ڈویژن کا نیا کمانڈر بنایا گیا۔ بعد میں جنرل نرنجن پرساد نے جنرل جوگندر سنگھ کو دیے انٹرویو میں اس بات کی تردید کی کہ انھوں نے جیپ میں کوئی اہم کاغذ چھوڑے تھے۔

انھوں نے انٹرویو میں کہا، ’میں جیپ میں صرف ایک پیڈ چھوڑ کر آیا تھا۔ بعد میں میرے افسروں نے مجھے اس معاملے پر بلیک میل کرنے کی کوشش کی اور میرے خلاف انکوائری اس شخص کو سونپی گئی جس کی خفیہ رپورٹ میں میں نے اس کے خلاف لکھا تھا۔‘

جوگندر سنگھ اپنی کتاب ’بیہائنڈ دا سین' میں جنرل نرنجن پرساد کا دفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نرنجن کو اس لیے نہیں برطرف کر دیا گیا کہ وہ ایک بزدل کمانڈر تھے بلکہ اس لیے کہ وہ ایک ’ڈیفیكلٹ سب آرڈینیٹ‘ تھے۔



جوگندر سنگھ اور ہربكش سنگھ ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے تھے لیکن کچھ غیر جانبدار مبصرین جیسے میجر کیسی پرول اور میجر آغا ہمايوں امین کا خیال ہے کہ نرنجن پرساد کی ڈویژن نے بہتر مواقع کو ہاتھ سے نکل جانے دیا اور ان کی وجہ سے انڈیا کی کافی سبکی ہوئی۔



Courtesy : BBC Urdu

پاکستان کی وفاقی حکومت نے بھنگ کی کاشت کی اجازت دے دی

No comments
دنیا کے کئی ممالک میں بھنگ کو سرور کے حصول یا طبی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی جا چکی ہے

پاکستان کی وفاقی حکومت نے ادویات میں استعمال کے لیے ایک محدود پیمانے پر بھنگ کی کاشت کی اجازت دے دی ہے اور اس بارے میں متعلقہ حکام کو عملی اقدامات کرنے کا حکم دیا ہے۔

بھنگ کی کاشت حکومت کی نگرانی میں ہوگی جبکہ نجی شعبے کو اس منصوبے میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ بھنگ کی کاشت سے اگلے تین سال میں پاکستان ایک ارب ڈالر کا زرمبادلہ کما سکتا ہے۔

اس حوالے سے پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے بدھ کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بھنگ کی کاشت کے لیے پشاور، جہلم اور چکوال کے علاقوں کا انتخاب کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ کراچی یونیورسٹی میں قائم ادارے انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز (آئی سی سی بی ایس) نے تحقیق کے بعد بھنگ کی کاشت کے لیے تین علاقوں کی نشاندہی کی تھی جن میں مری ایکسپریس وے سے ملحقہ علاقہ موضع لوکوٹ، صوبہ خیبر پختونخوا کا ضلع ہری پور اور سندھ کے ضلع ٹھٹہ کا علاقہ میرپور ساکرو شامل ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ بھنگ کینسر سمیت ان دیگر بیماریوں کی ادویات بنانے کے لیے استعمال ہوگی جن میں مریض شدید درد کے شکار ہوجاتے ہیں۔

بی بی سی کو دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے رواں سال اپریل میں وزارتِ انسداد منشیات کو ہدایت کی تھی کہ وہ بھنگ کی کاشت کے حوالے سے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے علاوہ وزارت غذائی تحفظ اور وزارت تجارت کے ساتھ مل کر لائحہ عمل تیار کریں تاکہ بھنگ کو ادویات میں استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ بیرون ملک برآمد بھی کیا جاسکے جہاں پر یہ ادویات کی تیاری میں استعمال ہو رہی ہے۔

ان دستاویزات کے مطابق متعلقہ وزارتوں کے حکام کی ملاقات کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ بھنگ کے حوالے سے جو بین الاقوامی تحقیق سامنے آئی ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے محدود پیمانے پر اس کی کاشت کی جائے کیونکہ اگر نئے سرے سے اس پر تحقیق کا عمل شروع کیا گیا تو اس سے نہ صرف وقت کا ضیاع ہوگا بلکہ اس کے لیے کثیر رقم بھی درکار ہوگی۔

ان دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے زیر انتظام چلنے والی پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ لیبارٹری (پی سی ایس آئی آر) کو اپ گریڈ کرنے کے بعد اس کا تجزیہ کیا جائے اور تجزیہ کرتے وقت عالمی ادارہ صحت کے اصولوں کو سامنے رکھا جائے۔

ان دستاویزات میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جن علاقوں میں بھنگ کو کاشت کیا جائے گا وہ اینٹی نارکوٹکس یا انسداد منشیات کی فورس کی نگرانی میں رہیں گے۔



حکومت کی جانب سے اس تاثر کو غلط قرار دیا گیا ہے کہ اس کاشت سے نشہ آور اشیا بنائی جائیں گی

’25 ارب ڈالر سے زیادہ کا عالمی کاروبار‘

وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا کہ بھنگ کے پودے سے تیل بھی نکالا جاتا ہے اور جن کھلاڑیوں کو کوئی چوٹ وغیرہ آجائے، وہ بھی اس کو استعمال کرتے ہیں۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ بھنگ کے پودے پر تحقیق سنہ 1983 سے جاری ہے تاہم اس تحقیق پر مؤثر کام سنہ 2016 میں کیا گیا۔

اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کے ہمسایہ ملک چین میں 40 ہزار ایکڑ پر بھنگ کاشت ہو رہی ہے جبکہ کینیڈا میں ایک لاکھ ایکڑ پر بھنگ کاشت کی جا رہی ہے۔

وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں بھنگ کی کاشت کا بزنس 25 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ بھنگ ٹیکسٹائل کی صنعت میں بھی استعمال ہوگی کیونکہ کپاس کی کاشت کم ہو رہی ہے، اس لیے بھنگ کو اس کے متبادل کے طور استعمال کیا جائے گا۔

اُنھوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ بھنگ سے نشہ آور چیزیں تیار ہوں گی۔

’درد کش ضرور مگر علاج نہیں‘

طبی ماہر ڈاکٹر محمد ہارون کہتے ہیں کہ پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ ہوگا کہ اسے دوا سازی میں استعمال کیا جائے گا حالانکہ ’اس کا استعمال نجی سطح پر بطور جڑی بوٹی ہونا کوئی نئی بات نہیں۔‘

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس کا ’استعمال درد کو دور کرنے کے لیے کیا جاتا ہے تاہم ایسی کوئی ٹھوس تحقیق نہیں جس کے مطابق یہ کسی بیماری کا علاج ہو۔‘

طبی استعمال کی اجازت دنیا میں کہاں کہاں؟

کئی ممالک میں بھنگ کو سرور حاصل کرنے کے لیے یا طبی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی جا چکی ہے۔

وہ ممالک جہاں بھنگ کا طبی مقاصد کے لیے استعمال قانونی ہے، ان میں برطانیہ کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، فن لینڈ، جرمنی، اٹلی، نیدرلینڈز، نیوزی لینڈ، پولینڈ، پرتگال، سری لنکا، تھائی لینڈ اور دیگر کئی ممالک شامل ہیں۔

امریکہ کی 33 ریاستوں میں طبی مقاصد کے لیے اسے قانونی طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے تاہم امریکہ کے وفاقی قانون کے مطابق یہ اب بھی شیڈول 1 کی منشیات کی فہرست میں شامل ہے۔

واضح رہے کہ بھنگ کے پودے میں سینکڑوں مختلف کیمیائی اجزا ہوتے ہیں جن میں سے کچھ سرور کی کیفیت بھی پیدا کرتے ہیں تاہم طبی مقاصد کے لیے استعمال کی جانے والی بھنگ میں سے یہ اجزا عموماً نکال دیے جاتے ہیں۔

ماہرین کی جانب سے اس کے طبی فوائد کے حوالے سے وسیع تر تحقیق کرنے پر زور دیا جاتا ہے لیکن دنیا کے کئی ممالک میں اسے خطرناک نشہ آور مواد کا درجہ حاصل ہونے کی وجہ سے اس پر تحقیق کا دائرہ محدود رہا ہے۔



تھائی لینڈ میں حال ہی میں ملک کا پہلا سرکاری میڈیکل کینابس کلینک قائم کیا گیا ہے جو فی الوقت مریضوں کو مفت علاج فراہم کر رہا ہے

دنیا کی مختلف ثقافتوں میں ہزاروں سال قبل بھی بھنگ کے استعمال کے شواہد ملتے ہیں۔

مئی 2020 میں اسرائیل کے ایک 2700 سال پرانے معبد کے آثار سے کچھ ایسے کیمیائی اجزا ملے تھے جس کا سائنسی تجزیہ کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ بھنگ کے اجزا ہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے معبد میں عبادت کے دوران بھنگ اس لیے جلائی جاتی ہو تاکہ لوگوں پر ’وجدانی کیفیت‘ طاری ہو جائے۔

اسی طرح چین اور تاجکستان کی سرحد کے قریب واقع جرزنکل قبرستان جہاں کھدائی کا کام سنہ 2013 میں شروع ہوا تھا، وہاں بھی تحقیق کاروں کو قبر کشائی کے مقام سے دس لکڑی کی انگیٹھیاں ملیں جن میں پتھر اور جلائے جانے کے واضح نشانات تھے۔

لکڑی کی انگیٹھی کے ساتھ جو بھنگ کے عناصر ملے وہ خاص طور سے کینابائنول (سی بی این) تھے جو بھنگ کے عناصر ہیں۔


Courtesy : BBC Urdu

Scom Packages Internet-Calls-Sms Daily/ Weekly and Monthly

No comments

SCOM is the company dealing with GSM in Azad Jammu Kashmir and Gilgit Baltistan. It is the abbreviation of the Special Communication Organization Network. It was basically launched in the 2004 and is now offering best 4G coverage across the 450 cities and villages that means it is giving broad coverage to nearly rural and urban areas of above-mentioned locations.

In this article, we will be delivering to you the best out of best scom packages that SCOM (special communication organization network) offers. These packages include all the way monthly, weekly and daily internet, calls and sms buckets.

Other than the internet packages we will go hand to hand with the cheapest SCOM call packages as well.


SCOM Internet Bundles (3G / 4G)

SCOM internet packages are available in different ranges that fall from rs. 20 to Rs. 550, including the daily, weekly and monthly packages. These offers are available in low cost but give you high incentives. Below is the summary of all packages you do not need to get fed up or tired of long details.

The summary of SCOM internet packages is as follow.


INTERNET / CHARGESVALIDITYSCOM DAILY DATA PACKAGE200 MB / 20 Rs.1 DAYSCOM DAILY PLUS PACKAGE500 MB / 29 Rs.1 DAYSCOM WEEKLY DATA PACKAGE800 MB / Rs. 757 DAYSCOM SUPER WEEKLY DATA PACKAGE1 GB + 1 GB / Rs. 1297 DAYSCOM MONTHLY INTERNET PACKAGE3,5 GB / 30030 DAYSSCOM MONTHLY GOLD PACKAGE6 GB / Rs. 44930 DAYSSCOM MONTHLY PREMIUM PACKAGE10 GB / Rs. 54930 DAYS

Subscription method

After getting the idea about the packages, customers make some choices but the question which arises here is how to subscribe to the package. You can simply avail the offer by dialing the *111# and then you are required to follow the instructions only.

Super Card Offers by SCOM

You are tired of recharging your account again and again? Do not worry you can simply load a super card and enjoy the time without worrying about the shortage of credit. SCOM cares for its customers and gives them varieties like the super card for 15 days and super card for 30 days.

SCOM Super Card for 15 Days:

It offers you the following incentives

  • You can enjoy 700 minutes on all SCOM networks
  • 70 minutes for Other Local Networks
  • 750 SMS to any network
  • 750 MBs mobile data Internet
  • It is valid for 15 days
  • Its purchasing price is 300 rs.

SCOM Super Card for 30 Days:

The offer incentives are here below,

  • It gives you 1,600 SCOM minutes on all SCOM networks
  • You can have 150 SCOM minutes to Other Networks
  • You can have 2000 SMS on any network
  • 1,600 MB Internet is available
  • The Price of SCOM Super Card is Rs. 500
  • Validity is of 30 Days

Specificity:

  • Once after the card gets expired you need to reload it.
  • It is necessary to use the offers within the due limit otherwise the offers will automatically diminish.
  • If you want to check the remaining free sms, minutes or mbs of data, you can simply dial the USSD code 129 to check the remaining resources.

Balance sharing from SCOM to SCOM

If you or your friend is short of credit and want to share the balance so simply follow the instructions

  • Go to the dial pad and dial the *128*Amount*Number# (this is for the customers in Kashmir Localities)
  • Go to the dial pad and dial *128*Number*Amount# (this is for the customers in Gilgit Baltistan Localities)

PrePaid Packages by SCOM

SCOM is giving both the services of Prepaid and Postpaid packages but here we are the concern with prepaid packages. They are categorized according to the localities.


How to subscribe to the SCOM prepaid packages?

The question is so authentic, this problem arises in many situations and people find difficulty in a subscription of prepaid packages. here is the simple method to subscribe Azad Jammu Kashmir Prepaid SCOM packages

For the activation of SCOM prepaid bundles simply follow the instructions as below:

  • Go to the dial pad and dial 725
  • Your packages request will get received.
  • Once your request gets accepted by SCOM customer care service unit, an electronic automatic confirmation message will pop out on your mobile screen.

Call Rates of SCOM

SCOM call charges again vary for two different locations and their nearest localities

  • Call charges in Azad Jammu Kashmir are at the rate of 11.95 RS.
  • Call rates for Gilgit Baltistan are RS. 10

SCOM Prepaid CALL Packages For Azad Jammu Kashmir

here is the summary of SCOM prepaid packages as follow. you can subscribe to prepaid packages by dialing *725#


SCOM - Mobile Network of Kashmir

No comments

SCOM stands for Special Communication Organization Network.

First ever GSM cellular services in Azad Jammu & Kashmir and Gilgit Baltistan were launched by SCO in 2004 with brand name of SCOM.

SCOM provides largest network coverage in the area with equal footprint in rural and urban terrain in nearly 450 major cities, towns and villages both in Azad Jammu & Kashmir and Gilgit Baltistan. 

Lowest call rates, attractive packages, nationwide roaming facility, GPRS and EDGE services are network key features.


How to check Free Minutes available on loading of scratch card
Dial 129 for query of free minutes on selected packages (For Azad Jammu & Kashmir customers only)

Call Cost after Every Call
Call cost notification is available to all users free of cost (For Azad Jammu & Kashmir customers only)

CBCHS (Cell Broadcast Channel Service)
Subscriber will get location information over the cell phone free of cost (For Gilgit Baltistan customers only).

Balance Share
 Balance sharing facility is avail to all subscribers in AJ&K and GB.

Prepaid Package Activation
Dial 725 for package activation. SCO call center staff will note the request and your package will be activated. SCOM will send a confirmation SMS that demanded package has been activated. 
Call Charges Rs. 10.00+1.95=11.95 (For Azad Jammu & Kashmir customers only) 
Call Charges Rs. 10.00 (For Gilgit Baltistan customers only)

Postpaid Balance Query
Write qc in the message and send it to 99999 for querying the current usage of the postpaid number.

GPRS Activation
Dial 725 for GPRS activation. SCO call center staff will note the request and your GPRS/EDGE service will be activated. SCOM will send an activation confirmation SMS to the subscriber's cell phone.
For activation call charges Rs. 10.00+1.95=11.95 for Azad Jammu & Kashmir and Rs. 10.00 for Gilgit Baltistan. 
Charges for GPRS/EDGE facility usage Rs. 1 per 15 minutes. To configure your cell phone to use GPRS/EDGE, follow GPRS Setting link to get settings.

  • USSD (Unstructured Supplementary Service Data)
  • For Balance Query*125#
    For Card Recharge*126*Pin Number#
    Balance Transfer;*128*amount*mobile number# (For Azad Jammu & Kashmir customer)
    *128*mobile number*amount# (For Gilgit Baltistan customer)

دنیا کی سب سے زیادہ پائیدار ’قوم‘ نخجوان

No comments

نخجوانی باشندے اپنے خطے کو ارضِ نوح کہتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ حضرتِ نوح یہاں دفن ہیں

امکان یہی ہے کہ شاید آپ نے نخجوان کا نام سنا ہی نہ ہو۔ آرمینیا، ایران اور ترکی کے درمیان کوہ قاف سے پرے ایک پہاڑی علاقہ، یہ ایک خود مختار علاقہ ہے، جو اپنے وقت کے سویت یونین کی ایک دور دراز جنوبی خطے آذربائیجان کا ایک علاقہ ہے جہاں بہت ہی کم سیاح جاتے ہیں۔

یہ خود مختار جمہوریہ، آذربائیجان سے جغرافیائی طور پر کٹا ہوا حصہ ہے (نخجوان اور آذربائیجان کے درمیان آرمینیا کی ایک 80 سے 130 کلو میٹر بڑی ایک پٹّی جو دنیا سے سب سے زیادہ بڑا خشکی سے گھرا ہوا بیرونی علاقہ جس کا جزیرہِ بالی کے برابر رقبہ، جو سنہرے گنبد والی مسجد کے ساتھ بحیرہِ اسود اور بحیرہِ کیسپین کے درمیان خشک پہاڑوں پر مشتمل ایک خطہ ہے۔

ترکی، ایران اور آرمینیا میں گھرا ہو یہ علاقہ جو کہ اصل میں آذربائیجان کا علاقہ ہے۔ نخجوان دنیا کا سب سے بڑا خشک زمین میں گھرا ہوا ایک بیرون ملک خطہ ہے

یہاں ایک بہت ہی بلند مزار ہے جہاں حضرتِ نوح مدفون ہیں، ایک پہاڑ کی چوٹی پر ایک قلعہ بنا ہوا ہے جسے کرہِ ارض کے ایک معلوماتی پروگرام 'لونلی پلانیٹ' نے یوریشیا کا 'ماچو پیچو' قرار دیا ہے (ماچو پیچو اصل میں جنوبی امریکہ کی 'انکا' تہذیب کا پہاڑ کی چوٹی پر آباد ایک قدیمی شہر کا نام ہے)، دنیا کا صاف ترین دارالحکومت جہاں سرکاری ملازمین درخت لگاتے ہیں اور ہر ہفتےگلیاں صاف کرتے ہیں۔ یہ وہ پہلا خطہ ہے جس نے سویت یونین کے ٹوٹتے وقت سب سے پہلے آزادی کا اعلان کیا تھا، جو کہ لتھوانیا سے چند ہفتے قبل کیا تھا، تاکہ دو ہفتوں بعد اپنے آپ کو آذربائیجان کا حصہ بنانے لے۔

ظاہر ہے کہ مجھے بھی ابھی حال ہی میں آذربائیجان کے تیل کی بو میں رچے بسے دارالحکومت باکو سے جمہوریہ نخجوان کے دارالحکومت 'نخجوان شہر' کے اتفاقیہ سفر سے پہلے اس کے بارے میں علم نہیں تھا۔

میں نے گذشتہ پندرہ برسوں میں سابق سویت یونین کے کئی علاقوں میں سیر و سیاحت کی ہے، میں نے روسی زبان بھی سیکھی ہے، اور 'ٹرانس نِسٹریا' جیسی کئی چھوٹی چھوٹی قوموں کو دریافت کیا، اس کے علاوہ تاجکستان اور کرغزستان کا انتخابات کی مانیٹرنگ بھی کی ہے۔

لیکن نخجوان جانے کا کبھی موقعہ ہی نہیں بنا تھا۔ کیونکہ یہ سرد جنگ کے دوران سویت یونین کا ایک دور دراز مقام تھا جو کہ اس وقت امریکی فوجی اتحاد نیٹو کے دو ارکان ترکی اور ایران کی سرحد پر وجود تھا اور یہ تزویراتی طور پر منفرد ہونے کی وجہ سے الگ تھلگ اور اتنا خفیہ اور بند علاقہ تھا کہ خود سویت یونین کے شہریوں کو سیکیورٹی کی وجہ سے یہاں آنے کی اجازت نہیں تھی۔ سویت یونین سے علحیدہ ہونے کے تیس برس بعد بھی یہ قوم آج بھی روس اور دنیا بھر کے لیے ایک نامعلوم خطہ ہیں۔



بہت ہی کم غیر ملی سیاح سابق سویت یونین کے اس دور دراز علاقے کا سفر کرتے ہیں

آج اگر کسی کے پاس آذربائیجان کا ویزا ہے تو وہ اس خطے میں جا سکتا ہے، اور کیونکہ یہ قدرے محفوظ خطہ ہے، یہاں کے حکام فوراً ہوشیار ہو جاتے ہیں جیسے ہی وہ کسی غیر ملکی کو وہاں آتے ہوئے دیکھتے ہیں، کیونکہ اس علاقے میں غیر ملکی کم ہی آتے ہیں۔

آذربائیجان ائر لائین کے طیارے سے اترتے ہی اور امیگریشن کے مختلف ڈیسکوں سے ہوتے ہوئے جب میں گزرا تو ایک شخص نے میرے کانوں میں کھسر پسر کرتے ہوئے کہا 'پولیس ۔۔۔۔ یہ تمہارے بارے میں بات کر رہی ہے۔' میں نے اُسے کہا کہ 'تم کیسے جانتے ہو کہ میں کون ہوں؟ 'انھوں نے کہا تھا کہ یہ آنے والا برطانوی شہری چمکتی ہوئی سرخ قمیض پہنے ہوئے ہے۔' اس کا مطلب ہے کہ باکو ائر پورٹ پر سکیورٹی نے میرے آنے کی اطلاع نخجوان آنے سے پہلے ہی دے دی تھی۔ اور بہت ممکن ہے کہ میری بہت ہی بھڑکیلی نیکر نے مجھے عام لوگوں جیسے لگنے نہیں دیا تھا۔

آپ کو نخجوان میں کہیں اتنا سا بھی کوڑا کرکٹ نظر نہیں آئے گا

جب میں اپنے ٹیکسی ڈرائیور مرزا ابراہیموو کی زبردست مرسیڈیز کار میں بیٹھ کر ائر پورٹ سے باہر نکلا تو اُس نے مجھے بتایا کہ 'آپ کو اتنا سے کوڑا کرکٹ نخجوان کے کسی بھی حصے میں نظر نہیں آئے گا۔' نخجوان شہر سے وہ اس خطے کے دوسرے بڑے شہر اردوآباد روانہ ہوگیا۔

وہ درست کہہ رہا تھا: اس بیرونی خطے کے بارے میں میرا پہلا تاثر بہت ہی مسحور کن تھا، یہ شہر حیران کن حد تک صاف ستھرا تھا۔ میں اُس سے جاننا چاہتا تھا کہ سویت یونین کے زمانے کی رہائشی عمارتیں جن کے پاس سے میں گزر رہا تھا، اتنی زیادہ صاف ستھری کیوں ہیں، لیکن میری توجہ دور سے نظر آنے والی ایک آٹھ تکونی انداز میں لکھی اسلامی آیات کی ایک یادگار کی جانب ہو گئی، جس کے بارے میں ابراہیموو نے بتایا کہ اس کا یہاں کے مقامی لوگوں میں بہت احترام ہے۔



نخجوانی باشندے اپنے خطے کو ارضِ نوح کہتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ حضرتِ نوح یہاں دفن ہیں

حضرت نوح کا ایک مقبرہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے پانچ مقامات میں سے ایک ہے، لیکن یہ بات آپ نخجوانی باشندوں سے مت کہیے گا کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ ان کا وطن 'ارض نوح' ہے۔ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ لفظ 'نخجوان' آرمینائی زبان کے دو الفاظ کا ایک مرکب ہے جس کا مطلب 'آبائی نسل کا خطہ' بنتا ہے، جبکہ کئی آذربائیجانی دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ قدیم فارسی زبان کے لفظ 'نخ' (نوح) اور 'چوان' (جگہ) سے بنا ہے۔

مقامی روایت کے مطابق، جب طوفانِ نوح تھما تو حضرتِ نوح کی کشتی ایلاندغ نامی پہاڑ پر آکر ٹھہری تھی اور اس کشتی کے ٹھہرنے کی جگہ پر اس کے نشانات بھی بتائے جاتے ہیں۔ بہت ساری نجوانی باشندے آپ کو بتائیں گے کہ حضرت نوح اور ان کے ماننے والے اس مقام پر کئی دنوں تک ٹھہرے رہے، اور یہاں کے لوگ نوح کی آل اولاد سے ہیں۔

ابراہیموو نے چند دنوں کے بعد مجھے بتایا کہ اس پہاڑ کی چوٹی پر جو ایک کٹا ہوا نشان نظر آرہا ہے یہ وہ جگہ ہے جب یہ پانی میں ڈوبی ہوئی تھی تو نوح کی کشتی اس سے ٹکرائی تھی۔ ایک دن جب میں اردوآباد کے ایک پارک میں بیٹھا ہوا تھا تو ایک زیادہ عمر کے بزرگ میرے پاس آئے، وہ جان چکے تھے کہ میں ایک غیر ملکی ہوں۔ اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے سگریٹ سے اشارہ کرتے ہوئے وہ بولے 'وہ اس پہاڑ کی چوٹی پر وہاں نوح کی کشتی آکر ٹھہری تھی۔'



روایت کے مطابق کوہ الانداغ کی چوٹی سے حضرت نوح کی کشتی پانی کے اترنے کے بعد ٹکرائی تھی جس سے وہاں نشان پڑ گیا

ایک لحاظ سے نخجوان حضرت نوح کا دوسرا نام ہے، لیکن ساڑھے سات ہزار برس پہلے وہکوہ الانداغ پر اترے تھے (بعض لوگوں کے مطابق، اس کے ساتھ والے پہاڑ کوہِ ارارات پر اترے تھے، اس کا انحصار اس بات پر ہے آپ کس سے پوچھ رہے ہیں)، اور ان کی نسلیں ایرانیوں، عثمانیوں اور پھر روسیوں کے ادوار دیکھتی ہوئی آج مسلم اکثریتی آبادی کے طور پر وہاں موجود ہیں۔ چند دہائیاں پہلے سویت یونین کے زمانے کا آرمینیا سے ان کا ایک تنازع ماضی کی 'سرد باقیات' کے طور پر اب بھی موجود ہے۔

سنہ 1988 میں ماسکو کا سویت یونین کی جمہوریاؤں پر سے کنٹرول کمزور ہو رہا تھا، نخجوان کے ہمسائے میں آذربائیجان کے جنوب مغرب میں نگورنو-قراباغ میں آرمینیا کی حمایت یافتہ آرمینائی اقلیت اور آذربائیجان کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ اس سے پہلے کہ سنہ 1994 میں جنگ بندی ہوتی اس میں تقریباً تیس ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بہرحال اس جنگ کے دوران قریبی آرمینائی آبادی نے سویت یونین اور آذربائیجان اور نخجوان کے درمیان ریل اور سڑک کے تمام رستے بند کردیے تھے۔ دریائے آرس پر ترکی اور ایران کی جانب بچ جانے دو پلوں کی وجہ سے نخجوان کے لوگ مکمل تباہی سے بچ پائے۔

نخجوان کے اس محاصرے سے پیدا ہونے والی غذائی قلت کے نتیجے میں یہاں کے باشندوں میں خود انحصاری کی شدید ضرورت کا احساس رچ بس گیا۔ وہ اپنے ہمساؤں اور دریا پر پلوں پر انحصار نہیں کرنا چاہتے تھے اس لیے نخجوانی باشندوں نے اپنی غذا خود پیدا کرنی شروع کردی اور اپنی ضروریات کا سامان خود تیار کرنا شروع کردیا اور آذربائیجان میں سنہ 2005 کے تیل کی دریافت سے پیدا ہونے والی ترقی کے بعد سے، باکو نے اس علاقے میں زیادہ سرمایہ کاری کی جس سے اس خطے میں قومی سطح پر خود انحصاری کا جذبہ اور زیادہ گہرا ہوا جو کہ پائیدار ترقی کے مطالعے کے لیے ایک زبردست مثال ہے۔



محاصرے کے دنوں میں نخجوان میں خودانحصاری کی شدید ضرورت کی وجہ سے ایک مضبوط قومی شناحت کا احساس پیدا ہوا

شمالی کوریا کی طرح آج آذربائیجان کا یہ بیرونی خطہ خود مختار اقتصادی ترقی کی بہترین مثالوں میں سے ایک ہے، جہاں ایک بادشاہت یا ایک ملک کسی بین االاقوامی مدد یا تجارت کے بغیر اپنے وسائل پر خود زندہ رہ سکتا ہے۔ لیکن مجھے جلد پتہ چلا کہ نخجوان کی اندرون بین اقتصادی حکمت عملی کے آہستہ غذا کھانے، نامیاتی اور ماحولیاتی-دوست اثرات بہت زیادہ ہیں --- اور یہ سوچ اس خطے کے تفخر اور اس کی شناخت کی وجہ بن گئی ہے۔

نخجوان میں کھانے کا بہت احترام کیا جاتا ہے اور اس کی وجہ بھی ہے۔ 'ہم اس طرح آج کھانا کھا رہے ہیں کیونکہ ہم آج کھا سکتے ہیں۔'

ابراہیموو کے ایک دوست الشاد حسنوو نے یہ بات اس وقت کہی جب ہم ایرانی سرحد کے قریب کھانا کھا رہے تھے۔ اس نے اور ابراہیموو نے کہا کہ خوراک سٹور کرنے کی یادیں اب بھی ان کے ذہنوں میں محفوظ ہیں، لیکن سویت یونین پر اقتصادی انحصاری کی پالیسی سے آزاد ہونے کے بعد نخجوان نے اپنے خطے میں کسی قسم کی کرم کُش ادوایات کے استعمال پر سخت پابندی عائد کردی ہے، صرف نامیاتی خوراک۔ بہت صحت کا خیال رکھنے والے اب کوشش کرتے ہیں کہ اس بھیڑ کا گوشت کھایا جائے جو کسی نخجوان فارم سے آئی ہو، مچھلی وہ ہو جو نخجوانی جھیل سے آئی ہو، جنگلی سویا، سونف، ترخون اور تخم بالنگا ہو تو نخجوان کی پہاڑیوں سے حاصل کیا گیا ہو، نخجوانی باغات کے پھل اور یہاں تک کہ نمک بھی نخجوانی غاروں سے نکالا گیا ہو۔

کچھ ہی دیر بعد جہاں ہم کھانا کھا رہے تھے وہاں بھیڑ کے گوشت اور اس کی نرم ہڈیوں کا ڈھیر جمع چُن دیا گیا۔ یہ سب منقل سلاد، پنیر، بڑے بڑے نان، کباب، سینکڑوں قسم کے مصالحوں سے تازہ تازہ تیار کی ہوئی رہو مچھلی، بیئر اور واڈکا --- ان میں ہر شہ میں کسی نہ کسی بیماری کا علاج موجود تھا۔

جب میں نے نخجوانی نامیاتی مقامی غذا کے کھانے کے پیچھے محرکات جاننے کے بارے میں سوال کیا تو حسنوو نے کہا کہ اصل محرک ہماری اپنی بہتری ہے۔ 'ہماری لوگ صحت مند ہیں، اور ہم ان بیماریوں کا شکار نہیں ہوتے ہیں جو ہمیں پہلے ہوتی تھیں، کیونکہ ہم وہی کچھ کھاتے ہیں جو کہ قدرتی ہوتا ہے۔' جب میں یہ سن رہا تھا تو میں نے ایک بڑے ٹماٹر کو دانتوں سے کاٹا اور میرا ایک میٹھے رس سے بھر گیا۔ بلا شبہ میں نے اس پہلے کبھی بھی اتنا مزیدار ٹماٹر نہیں کھایا تھا۔



اس خطے میں خوارک کی پیداوار کے لیے سائینسی اختراہوں کے استعمال پر سخت پابندی عائد ہے، آہستہ آہستہ کھانے کھانے کی ثقافت نے اسے مقامی غذا کے استعمال کی جنت بنا دیا ہے

نخجوانی باشندوں کی صحت کا راز صرف سائنسی اختراہوں سے پاک خوراک ہی نہیں ہے۔ نخجوان شہر سے چودہ کلو میٹر دور دُزدگ میں نمک کی کانیں ہیں، بہت متاثر کن ماحول ہے اور ان کانوں کے غاروں میں سویت زمانے کا ایک سینیٹوریم بھی موجود ہے۔ ان کانوں کا نقشہ طبی سیاحوں کو یقین دلاتا ہے کہ ان کانوں میں موجود ایک کروڑ تیس لاکھ ٹن خالص نمک سانس کی کئی بیماریوں کا علاج کر سکتا ہے، دمہ سے لے کر تپ دق تک۔

نخجوان کا 30 سیلسیس درجہ حرارت تھوڑی دیر میں ختم ہوگیا جب ابراہیموو اور میں تاریک غار میں داخل ہوئے جہاں نمک کے ذرات کا ایک دھواں محسوس ہوا اور اس ماحول میں سانس کی بیماریوں کے علاج کے فوائد کا خیال ذہن میں آیا یا اسے ہم غار کے ماحول سے علاج کہہ سکتے۔ ہم نے گہری سانس لی۔ ابراہیموو نے بتایا کہ ہمارے پاس یہاں دنیا بھر کے علاقوں سے سیاح آتے ہیں۔ پچھلے برس ایک شخص یہاں یوروگوئے سے آیا تھا جسے شدید دمے کی بیماری تھی۔ وہ یہاں سے ٹھیک ہو کر گیا۔' عین اسی وقت وہاں سکول کے طلبا اور اساتذا کا ایک وفد آیا جنہوں نے وہاں نمک اور خاموشی کے ساتھ رات بسر کی۔

جب ہم کانوں سے باہر نکلے تو میں نے طے کیا کہ میں اس شہر کی بہترین صفائی کی جنونیت کا راز جانوں گا۔ ہر لحاظ سے نخجوان کو پورے کوہ قاف خطے کا نہیں تو کم از کم آدربائیجان کا صاف ترین شہر کہا جا سکتا ہے۔ جس طرف بھی نظر دوڑائیں، موٹرویز مکمل طور پر پختہ، گلیاں بہترین طور پر صاف ستھری، درختوں کے جھاڑ کو نفاست کا ساتھ کاٹ کر خوبصورت بنایا گیا تھا اور زمین میں سے جنگلی بوٹیوں کا مکمل صفایا کردیا گیا تھا۔



نخجوان کو کوہ قاف خطے کا ایک صاف ترین شہر کہا جاتا ہے

ناروے کی ایک تفصیلی ہیلسنکی رپورٹ کے مطابق، اس شہر کی اتنی بہترین حالت کی سب سے بڑی وجہ یہاں کے سرکاری ملازمین ہیں۔ جن میں اساتذا، فوجی، ڈاکٹر، اور دیگر سرکاری ملازمین جو رضاکارانہ طور پر اپنی چھٹی کے دن اپنی گلیوں کو صاف کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ، ان جنگلات کو پھر سے سرسبز کرنے کے لیے جن کے درخت کو کاٹ کر محاصرے کے دنوں میں جلایا گیا تھا، شہریوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ درخت لگائیں اگر وہ کام نہیں کر رہے ہیں یا گلیوں کی صفائی نہیں کر رہے ہیں۔ یہ سویت دنوں کی روایت ہے جسے 'سوبوٹنِک' کہا جاتا ہے۔ جو کے اب ایک متروک تصور ہے جس کے مطابق بغیر اجرت کے رضاکارانہ طور پر کام کیا جاتا تھا۔ یا اسے سویت یونین کے دنوں میں کسی نے بیان کیا تھا کہ ایک کام 'جو رضاکارانہ-لازمی طریقے سے کیا جاتا تھا۔'

میرے وہاں قیام کے دوران ایک ہفتے کی صبح ابراہیموو نے اپنی مرسیڈیز کار کھڑی کی اور قریبی فاصلے پر ہرے ہرے کھیتوں کی جانب اشارہ کیا۔ اس دن سورج کی تمازت میں لوگوں کا ایک گروہ اُس جگہ موجود تھا۔ اُس نے کہا کہ 'یہ لوگ درخت لگا رہے ہیں۔' بظاہر 'سوبوٹنِک' کی روایت دوسروں کی بھلائی کے لیے تھی: ہر ایک درخت کے لگانے سے اس خطے میں صاف ہوا میں اضافہ ہوتا ہے جو انسانی پھیپھڑوں کو بہتر کرتی ہے، بلکہ یہ ساتھ ساتھ اس خطے کے پسندیدہ پھلوں کی فراہوانی کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔



کچھ لوگ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ اس خطے کی بہترین صفائی مقامی حکومت کی سخت گیر پالیسی کا نتیجہ ہے

لیکن، اسی ناروے کی ہیلسنکی رپورٹ جس کا ابھی اوپر ذکر کیا گیا ہے، اس کے مطابق، نخجوان کی وزارتِ اقتصادی ترقی کے ایک اہلکار نے تسلیم کیا کہ اگر کوئی بھی سرکاری ملازم اس 'رضاکارانہ' کام پر اعتراض کرتا ہے تو اسے سرکاری ملازمت سے فورا مستعفی ہونا پڑتا ہے۔ نخجوان کی ریاستی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے تسلیم کیا کہ نخجوان کی حکومت کے موجودہ سربراہ، واصف طالیبوو جن کو کئی لوگ ایک سخت گیر حکمران کہتے ہیں، اس مفت کے کام سے بہت زیادہ آمدنی کما رہے ہیں۔

نخجوان ایک ایسا معمہ ہے جسے میں سمجھ نہیں سکا

اپنے اس دورے کے اختتام پر میں اس پر غور کرنے لگ گیا کہ کیا نخجوان کا ایک صاف ستھرے اور سر سبز شہر کا تاثر سنگاپور جیسا ہے جہاں صفائی اور دیکھ بھال سرکاری سطح پر کم اجرت والی مزدوری اور اس خوف سے ہے کہ حکومت سخت سزا دے گی اگر صفائی نہ رکھی گئی۔ نخجوان ایک ایسا معمہ ہے جس میں سمجھ نہیں پایا: کیا یہ ایک ترقی پسند اور روشن فکر خطہ ہے جہاں لوگ دوسروں کی بھلائی کے لیے رضاکارانہ کام کرتے ہیں، یا یہ ایک محتاط طریقے سے ایک درویشانہ جاگیردارانہ نظام کھڑا کیا گیا ہے یا یہ ان دونوں باتوں کا ایک ملا جلا نظام ہے۔

تاہم ایک بات جو یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے وہ یہ کہ میں اس سے پہلے جہاں جہاں گیا ہوں، اس جیسا ایک الگ تھلگ بیرونی خطہ میں نے کہیں اور نہیں دیکھا: سابق سویت یونین کا ایک خفیہ مضبوط خطہ جہاں نوجوان لوگ آج بھی ریستورانوں میں ایک دوسرے سے کم آواز میں بات کرتے ہیں تاکہ انہیں ارد گرد کا کوئی اور شخص نہ سنے، لیکن یہ 'نامیاتی فارم سے اپنی میز تک' کی اپنی روشن فکری کی باتوں کو کسی غیر ملکی کے سامنے بڑے جوش و خروش کے ساتھ بیان کرتے ہیں، جہاں قومی مجموعی پیداوار میں 300 فیصد اضافے کے باوجود سرکاری ملازمین گزشتہ پندرہ برسوں سے ہر ہفتے کی چھٹی کے دن بغیر کسی اجرت کے کام کرتے ہیں، اور جس کے شہری ایک نبی کے ساتھ اپنا تاریخی رشتہ بہت فخر کے ساتھ جوڑتے ہیں جو کسی دور دراز علاقے سے یہاں اپنی کشتی میں پہنچا تھا اور جہاں آج کی مقامی حکومت اپنے آپ کو اب خود سے محصور کیے ہوئے ہے۔

میں یقین سے نہیں کہہ سکتا ہوں کہ مقامی غذا کو کھانے والے اس خطے کا کیا مستقبل ہے لیکن میں امید کرتا ہوں کہ یہ اپنے دروازے کھلے رکھے گا تاکہ میں ان میں خود مزید دریافت کرسکوں۔


© all rights reserved
made with by Sajid Sarwar Sajid