Responsive Ad Slot

test banner

Latest

epicks

دنیا کی سب سے زیادہ پائیدار ’قوم‘ نخجوان


نخجوانی باشندے اپنے خطے کو ارضِ نوح کہتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ حضرتِ نوح یہاں دفن ہیں

امکان یہی ہے کہ شاید آپ نے نخجوان کا نام سنا ہی نہ ہو۔ آرمینیا، ایران اور ترکی کے درمیان کوہ قاف سے پرے ایک پہاڑی علاقہ، یہ ایک خود مختار علاقہ ہے، جو اپنے وقت کے سویت یونین کی ایک دور دراز جنوبی خطے آذربائیجان کا ایک علاقہ ہے جہاں بہت ہی کم سیاح جاتے ہیں۔

یہ خود مختار جمہوریہ، آذربائیجان سے جغرافیائی طور پر کٹا ہوا حصہ ہے (نخجوان اور آذربائیجان کے درمیان آرمینیا کی ایک 80 سے 130 کلو میٹر بڑی ایک پٹّی جو دنیا سے سب سے زیادہ بڑا خشکی سے گھرا ہوا بیرونی علاقہ جس کا جزیرہِ بالی کے برابر رقبہ، جو سنہرے گنبد والی مسجد کے ساتھ بحیرہِ اسود اور بحیرہِ کیسپین کے درمیان خشک پہاڑوں پر مشتمل ایک خطہ ہے۔

ترکی، ایران اور آرمینیا میں گھرا ہو یہ علاقہ جو کہ اصل میں آذربائیجان کا علاقہ ہے۔ نخجوان دنیا کا سب سے بڑا خشک زمین میں گھرا ہوا ایک بیرون ملک خطہ ہے

یہاں ایک بہت ہی بلند مزار ہے جہاں حضرتِ نوح مدفون ہیں، ایک پہاڑ کی چوٹی پر ایک قلعہ بنا ہوا ہے جسے کرہِ ارض کے ایک معلوماتی پروگرام 'لونلی پلانیٹ' نے یوریشیا کا 'ماچو پیچو' قرار دیا ہے (ماچو پیچو اصل میں جنوبی امریکہ کی 'انکا' تہذیب کا پہاڑ کی چوٹی پر آباد ایک قدیمی شہر کا نام ہے)، دنیا کا صاف ترین دارالحکومت جہاں سرکاری ملازمین درخت لگاتے ہیں اور ہر ہفتےگلیاں صاف کرتے ہیں۔ یہ وہ پہلا خطہ ہے جس نے سویت یونین کے ٹوٹتے وقت سب سے پہلے آزادی کا اعلان کیا تھا، جو کہ لتھوانیا سے چند ہفتے قبل کیا تھا، تاکہ دو ہفتوں بعد اپنے آپ کو آذربائیجان کا حصہ بنانے لے۔

ظاہر ہے کہ مجھے بھی ابھی حال ہی میں آذربائیجان کے تیل کی بو میں رچے بسے دارالحکومت باکو سے جمہوریہ نخجوان کے دارالحکومت 'نخجوان شہر' کے اتفاقیہ سفر سے پہلے اس کے بارے میں علم نہیں تھا۔

میں نے گذشتہ پندرہ برسوں میں سابق سویت یونین کے کئی علاقوں میں سیر و سیاحت کی ہے، میں نے روسی زبان بھی سیکھی ہے، اور 'ٹرانس نِسٹریا' جیسی کئی چھوٹی چھوٹی قوموں کو دریافت کیا، اس کے علاوہ تاجکستان اور کرغزستان کا انتخابات کی مانیٹرنگ بھی کی ہے۔

لیکن نخجوان جانے کا کبھی موقعہ ہی نہیں بنا تھا۔ کیونکہ یہ سرد جنگ کے دوران سویت یونین کا ایک دور دراز مقام تھا جو کہ اس وقت امریکی فوجی اتحاد نیٹو کے دو ارکان ترکی اور ایران کی سرحد پر وجود تھا اور یہ تزویراتی طور پر منفرد ہونے کی وجہ سے الگ تھلگ اور اتنا خفیہ اور بند علاقہ تھا کہ خود سویت یونین کے شہریوں کو سیکیورٹی کی وجہ سے یہاں آنے کی اجازت نہیں تھی۔ سویت یونین سے علحیدہ ہونے کے تیس برس بعد بھی یہ قوم آج بھی روس اور دنیا بھر کے لیے ایک نامعلوم خطہ ہیں۔



بہت ہی کم غیر ملی سیاح سابق سویت یونین کے اس دور دراز علاقے کا سفر کرتے ہیں

آج اگر کسی کے پاس آذربائیجان کا ویزا ہے تو وہ اس خطے میں جا سکتا ہے، اور کیونکہ یہ قدرے محفوظ خطہ ہے، یہاں کے حکام فوراً ہوشیار ہو جاتے ہیں جیسے ہی وہ کسی غیر ملکی کو وہاں آتے ہوئے دیکھتے ہیں، کیونکہ اس علاقے میں غیر ملکی کم ہی آتے ہیں۔

آذربائیجان ائر لائین کے طیارے سے اترتے ہی اور امیگریشن کے مختلف ڈیسکوں سے ہوتے ہوئے جب میں گزرا تو ایک شخص نے میرے کانوں میں کھسر پسر کرتے ہوئے کہا 'پولیس ۔۔۔۔ یہ تمہارے بارے میں بات کر رہی ہے۔' میں نے اُسے کہا کہ 'تم کیسے جانتے ہو کہ میں کون ہوں؟ 'انھوں نے کہا تھا کہ یہ آنے والا برطانوی شہری چمکتی ہوئی سرخ قمیض پہنے ہوئے ہے۔' اس کا مطلب ہے کہ باکو ائر پورٹ پر سکیورٹی نے میرے آنے کی اطلاع نخجوان آنے سے پہلے ہی دے دی تھی۔ اور بہت ممکن ہے کہ میری بہت ہی بھڑکیلی نیکر نے مجھے عام لوگوں جیسے لگنے نہیں دیا تھا۔

آپ کو نخجوان میں کہیں اتنا سا بھی کوڑا کرکٹ نظر نہیں آئے گا

جب میں اپنے ٹیکسی ڈرائیور مرزا ابراہیموو کی زبردست مرسیڈیز کار میں بیٹھ کر ائر پورٹ سے باہر نکلا تو اُس نے مجھے بتایا کہ 'آپ کو اتنا سے کوڑا کرکٹ نخجوان کے کسی بھی حصے میں نظر نہیں آئے گا۔' نخجوان شہر سے وہ اس خطے کے دوسرے بڑے شہر اردوآباد روانہ ہوگیا۔

وہ درست کہہ رہا تھا: اس بیرونی خطے کے بارے میں میرا پہلا تاثر بہت ہی مسحور کن تھا، یہ شہر حیران کن حد تک صاف ستھرا تھا۔ میں اُس سے جاننا چاہتا تھا کہ سویت یونین کے زمانے کی رہائشی عمارتیں جن کے پاس سے میں گزر رہا تھا، اتنی زیادہ صاف ستھری کیوں ہیں، لیکن میری توجہ دور سے نظر آنے والی ایک آٹھ تکونی انداز میں لکھی اسلامی آیات کی ایک یادگار کی جانب ہو گئی، جس کے بارے میں ابراہیموو نے بتایا کہ اس کا یہاں کے مقامی لوگوں میں بہت احترام ہے۔



نخجوانی باشندے اپنے خطے کو ارضِ نوح کہتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ حضرتِ نوح یہاں دفن ہیں

حضرت نوح کا ایک مقبرہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے پانچ مقامات میں سے ایک ہے، لیکن یہ بات آپ نخجوانی باشندوں سے مت کہیے گا کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ ان کا وطن 'ارض نوح' ہے۔ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ لفظ 'نخجوان' آرمینائی زبان کے دو الفاظ کا ایک مرکب ہے جس کا مطلب 'آبائی نسل کا خطہ' بنتا ہے، جبکہ کئی آذربائیجانی دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ قدیم فارسی زبان کے لفظ 'نخ' (نوح) اور 'چوان' (جگہ) سے بنا ہے۔

مقامی روایت کے مطابق، جب طوفانِ نوح تھما تو حضرتِ نوح کی کشتی ایلاندغ نامی پہاڑ پر آکر ٹھہری تھی اور اس کشتی کے ٹھہرنے کی جگہ پر اس کے نشانات بھی بتائے جاتے ہیں۔ بہت ساری نجوانی باشندے آپ کو بتائیں گے کہ حضرت نوح اور ان کے ماننے والے اس مقام پر کئی دنوں تک ٹھہرے رہے، اور یہاں کے لوگ نوح کی آل اولاد سے ہیں۔

ابراہیموو نے چند دنوں کے بعد مجھے بتایا کہ اس پہاڑ کی چوٹی پر جو ایک کٹا ہوا نشان نظر آرہا ہے یہ وہ جگہ ہے جب یہ پانی میں ڈوبی ہوئی تھی تو نوح کی کشتی اس سے ٹکرائی تھی۔ ایک دن جب میں اردوآباد کے ایک پارک میں بیٹھا ہوا تھا تو ایک زیادہ عمر کے بزرگ میرے پاس آئے، وہ جان چکے تھے کہ میں ایک غیر ملکی ہوں۔ اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے سگریٹ سے اشارہ کرتے ہوئے وہ بولے 'وہ اس پہاڑ کی چوٹی پر وہاں نوح کی کشتی آکر ٹھہری تھی۔'



روایت کے مطابق کوہ الانداغ کی چوٹی سے حضرت نوح کی کشتی پانی کے اترنے کے بعد ٹکرائی تھی جس سے وہاں نشان پڑ گیا

ایک لحاظ سے نخجوان حضرت نوح کا دوسرا نام ہے، لیکن ساڑھے سات ہزار برس پہلے وہکوہ الانداغ پر اترے تھے (بعض لوگوں کے مطابق، اس کے ساتھ والے پہاڑ کوہِ ارارات پر اترے تھے، اس کا انحصار اس بات پر ہے آپ کس سے پوچھ رہے ہیں)، اور ان کی نسلیں ایرانیوں، عثمانیوں اور پھر روسیوں کے ادوار دیکھتی ہوئی آج مسلم اکثریتی آبادی کے طور پر وہاں موجود ہیں۔ چند دہائیاں پہلے سویت یونین کے زمانے کا آرمینیا سے ان کا ایک تنازع ماضی کی 'سرد باقیات' کے طور پر اب بھی موجود ہے۔

سنہ 1988 میں ماسکو کا سویت یونین کی جمہوریاؤں پر سے کنٹرول کمزور ہو رہا تھا، نخجوان کے ہمسائے میں آذربائیجان کے جنوب مغرب میں نگورنو-قراباغ میں آرمینیا کی حمایت یافتہ آرمینائی اقلیت اور آذربائیجان کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ اس سے پہلے کہ سنہ 1994 میں جنگ بندی ہوتی اس میں تقریباً تیس ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بہرحال اس جنگ کے دوران قریبی آرمینائی آبادی نے سویت یونین اور آذربائیجان اور نخجوان کے درمیان ریل اور سڑک کے تمام رستے بند کردیے تھے۔ دریائے آرس پر ترکی اور ایران کی جانب بچ جانے دو پلوں کی وجہ سے نخجوان کے لوگ مکمل تباہی سے بچ پائے۔

نخجوان کے اس محاصرے سے پیدا ہونے والی غذائی قلت کے نتیجے میں یہاں کے باشندوں میں خود انحصاری کی شدید ضرورت کا احساس رچ بس گیا۔ وہ اپنے ہمساؤں اور دریا پر پلوں پر انحصار نہیں کرنا چاہتے تھے اس لیے نخجوانی باشندوں نے اپنی غذا خود پیدا کرنی شروع کردی اور اپنی ضروریات کا سامان خود تیار کرنا شروع کردیا اور آذربائیجان میں سنہ 2005 کے تیل کی دریافت سے پیدا ہونے والی ترقی کے بعد سے، باکو نے اس علاقے میں زیادہ سرمایہ کاری کی جس سے اس خطے میں قومی سطح پر خود انحصاری کا جذبہ اور زیادہ گہرا ہوا جو کہ پائیدار ترقی کے مطالعے کے لیے ایک زبردست مثال ہے۔



محاصرے کے دنوں میں نخجوان میں خودانحصاری کی شدید ضرورت کی وجہ سے ایک مضبوط قومی شناحت کا احساس پیدا ہوا

شمالی کوریا کی طرح آج آذربائیجان کا یہ بیرونی خطہ خود مختار اقتصادی ترقی کی بہترین مثالوں میں سے ایک ہے، جہاں ایک بادشاہت یا ایک ملک کسی بین االاقوامی مدد یا تجارت کے بغیر اپنے وسائل پر خود زندہ رہ سکتا ہے۔ لیکن مجھے جلد پتہ چلا کہ نخجوان کی اندرون بین اقتصادی حکمت عملی کے آہستہ غذا کھانے، نامیاتی اور ماحولیاتی-دوست اثرات بہت زیادہ ہیں --- اور یہ سوچ اس خطے کے تفخر اور اس کی شناخت کی وجہ بن گئی ہے۔

نخجوان میں کھانے کا بہت احترام کیا جاتا ہے اور اس کی وجہ بھی ہے۔ 'ہم اس طرح آج کھانا کھا رہے ہیں کیونکہ ہم آج کھا سکتے ہیں۔'

ابراہیموو کے ایک دوست الشاد حسنوو نے یہ بات اس وقت کہی جب ہم ایرانی سرحد کے قریب کھانا کھا رہے تھے۔ اس نے اور ابراہیموو نے کہا کہ خوراک سٹور کرنے کی یادیں اب بھی ان کے ذہنوں میں محفوظ ہیں، لیکن سویت یونین پر اقتصادی انحصاری کی پالیسی سے آزاد ہونے کے بعد نخجوان نے اپنے خطے میں کسی قسم کی کرم کُش ادوایات کے استعمال پر سخت پابندی عائد کردی ہے، صرف نامیاتی خوراک۔ بہت صحت کا خیال رکھنے والے اب کوشش کرتے ہیں کہ اس بھیڑ کا گوشت کھایا جائے جو کسی نخجوان فارم سے آئی ہو، مچھلی وہ ہو جو نخجوانی جھیل سے آئی ہو، جنگلی سویا، سونف، ترخون اور تخم بالنگا ہو تو نخجوان کی پہاڑیوں سے حاصل کیا گیا ہو، نخجوانی باغات کے پھل اور یہاں تک کہ نمک بھی نخجوانی غاروں سے نکالا گیا ہو۔

کچھ ہی دیر بعد جہاں ہم کھانا کھا رہے تھے وہاں بھیڑ کے گوشت اور اس کی نرم ہڈیوں کا ڈھیر جمع چُن دیا گیا۔ یہ سب منقل سلاد، پنیر، بڑے بڑے نان، کباب، سینکڑوں قسم کے مصالحوں سے تازہ تازہ تیار کی ہوئی رہو مچھلی، بیئر اور واڈکا --- ان میں ہر شہ میں کسی نہ کسی بیماری کا علاج موجود تھا۔

جب میں نے نخجوانی نامیاتی مقامی غذا کے کھانے کے پیچھے محرکات جاننے کے بارے میں سوال کیا تو حسنوو نے کہا کہ اصل محرک ہماری اپنی بہتری ہے۔ 'ہماری لوگ صحت مند ہیں، اور ہم ان بیماریوں کا شکار نہیں ہوتے ہیں جو ہمیں پہلے ہوتی تھیں، کیونکہ ہم وہی کچھ کھاتے ہیں جو کہ قدرتی ہوتا ہے۔' جب میں یہ سن رہا تھا تو میں نے ایک بڑے ٹماٹر کو دانتوں سے کاٹا اور میرا ایک میٹھے رس سے بھر گیا۔ بلا شبہ میں نے اس پہلے کبھی بھی اتنا مزیدار ٹماٹر نہیں کھایا تھا۔



اس خطے میں خوارک کی پیداوار کے لیے سائینسی اختراہوں کے استعمال پر سخت پابندی عائد ہے، آہستہ آہستہ کھانے کھانے کی ثقافت نے اسے مقامی غذا کے استعمال کی جنت بنا دیا ہے

نخجوانی باشندوں کی صحت کا راز صرف سائنسی اختراہوں سے پاک خوراک ہی نہیں ہے۔ نخجوان شہر سے چودہ کلو میٹر دور دُزدگ میں نمک کی کانیں ہیں، بہت متاثر کن ماحول ہے اور ان کانوں کے غاروں میں سویت زمانے کا ایک سینیٹوریم بھی موجود ہے۔ ان کانوں کا نقشہ طبی سیاحوں کو یقین دلاتا ہے کہ ان کانوں میں موجود ایک کروڑ تیس لاکھ ٹن خالص نمک سانس کی کئی بیماریوں کا علاج کر سکتا ہے، دمہ سے لے کر تپ دق تک۔

نخجوان کا 30 سیلسیس درجہ حرارت تھوڑی دیر میں ختم ہوگیا جب ابراہیموو اور میں تاریک غار میں داخل ہوئے جہاں نمک کے ذرات کا ایک دھواں محسوس ہوا اور اس ماحول میں سانس کی بیماریوں کے علاج کے فوائد کا خیال ذہن میں آیا یا اسے ہم غار کے ماحول سے علاج کہہ سکتے۔ ہم نے گہری سانس لی۔ ابراہیموو نے بتایا کہ ہمارے پاس یہاں دنیا بھر کے علاقوں سے سیاح آتے ہیں۔ پچھلے برس ایک شخص یہاں یوروگوئے سے آیا تھا جسے شدید دمے کی بیماری تھی۔ وہ یہاں سے ٹھیک ہو کر گیا۔' عین اسی وقت وہاں سکول کے طلبا اور اساتذا کا ایک وفد آیا جنہوں نے وہاں نمک اور خاموشی کے ساتھ رات بسر کی۔

جب ہم کانوں سے باہر نکلے تو میں نے طے کیا کہ میں اس شہر کی بہترین صفائی کی جنونیت کا راز جانوں گا۔ ہر لحاظ سے نخجوان کو پورے کوہ قاف خطے کا نہیں تو کم از کم آدربائیجان کا صاف ترین شہر کہا جا سکتا ہے۔ جس طرف بھی نظر دوڑائیں، موٹرویز مکمل طور پر پختہ، گلیاں بہترین طور پر صاف ستھری، درختوں کے جھاڑ کو نفاست کا ساتھ کاٹ کر خوبصورت بنایا گیا تھا اور زمین میں سے جنگلی بوٹیوں کا مکمل صفایا کردیا گیا تھا۔



نخجوان کو کوہ قاف خطے کا ایک صاف ترین شہر کہا جاتا ہے

ناروے کی ایک تفصیلی ہیلسنکی رپورٹ کے مطابق، اس شہر کی اتنی بہترین حالت کی سب سے بڑی وجہ یہاں کے سرکاری ملازمین ہیں۔ جن میں اساتذا، فوجی، ڈاکٹر، اور دیگر سرکاری ملازمین جو رضاکارانہ طور پر اپنی چھٹی کے دن اپنی گلیوں کو صاف کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ، ان جنگلات کو پھر سے سرسبز کرنے کے لیے جن کے درخت کو کاٹ کر محاصرے کے دنوں میں جلایا گیا تھا، شہریوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ درخت لگائیں اگر وہ کام نہیں کر رہے ہیں یا گلیوں کی صفائی نہیں کر رہے ہیں۔ یہ سویت دنوں کی روایت ہے جسے 'سوبوٹنِک' کہا جاتا ہے۔ جو کے اب ایک متروک تصور ہے جس کے مطابق بغیر اجرت کے رضاکارانہ طور پر کام کیا جاتا تھا۔ یا اسے سویت یونین کے دنوں میں کسی نے بیان کیا تھا کہ ایک کام 'جو رضاکارانہ-لازمی طریقے سے کیا جاتا تھا۔'

میرے وہاں قیام کے دوران ایک ہفتے کی صبح ابراہیموو نے اپنی مرسیڈیز کار کھڑی کی اور قریبی فاصلے پر ہرے ہرے کھیتوں کی جانب اشارہ کیا۔ اس دن سورج کی تمازت میں لوگوں کا ایک گروہ اُس جگہ موجود تھا۔ اُس نے کہا کہ 'یہ لوگ درخت لگا رہے ہیں۔' بظاہر 'سوبوٹنِک' کی روایت دوسروں کی بھلائی کے لیے تھی: ہر ایک درخت کے لگانے سے اس خطے میں صاف ہوا میں اضافہ ہوتا ہے جو انسانی پھیپھڑوں کو بہتر کرتی ہے، بلکہ یہ ساتھ ساتھ اس خطے کے پسندیدہ پھلوں کی فراہوانی کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔



کچھ لوگ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ اس خطے کی بہترین صفائی مقامی حکومت کی سخت گیر پالیسی کا نتیجہ ہے

لیکن، اسی ناروے کی ہیلسنکی رپورٹ جس کا ابھی اوپر ذکر کیا گیا ہے، اس کے مطابق، نخجوان کی وزارتِ اقتصادی ترقی کے ایک اہلکار نے تسلیم کیا کہ اگر کوئی بھی سرکاری ملازم اس 'رضاکارانہ' کام پر اعتراض کرتا ہے تو اسے سرکاری ملازمت سے فورا مستعفی ہونا پڑتا ہے۔ نخجوان کی ریاستی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے تسلیم کیا کہ نخجوان کی حکومت کے موجودہ سربراہ، واصف طالیبوو جن کو کئی لوگ ایک سخت گیر حکمران کہتے ہیں، اس مفت کے کام سے بہت زیادہ آمدنی کما رہے ہیں۔

نخجوان ایک ایسا معمہ ہے جسے میں سمجھ نہیں سکا

اپنے اس دورے کے اختتام پر میں اس پر غور کرنے لگ گیا کہ کیا نخجوان کا ایک صاف ستھرے اور سر سبز شہر کا تاثر سنگاپور جیسا ہے جہاں صفائی اور دیکھ بھال سرکاری سطح پر کم اجرت والی مزدوری اور اس خوف سے ہے کہ حکومت سخت سزا دے گی اگر صفائی نہ رکھی گئی۔ نخجوان ایک ایسا معمہ ہے جس میں سمجھ نہیں پایا: کیا یہ ایک ترقی پسند اور روشن فکر خطہ ہے جہاں لوگ دوسروں کی بھلائی کے لیے رضاکارانہ کام کرتے ہیں، یا یہ ایک محتاط طریقے سے ایک درویشانہ جاگیردارانہ نظام کھڑا کیا گیا ہے یا یہ ان دونوں باتوں کا ایک ملا جلا نظام ہے۔

تاہم ایک بات جو یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے وہ یہ کہ میں اس سے پہلے جہاں جہاں گیا ہوں، اس جیسا ایک الگ تھلگ بیرونی خطہ میں نے کہیں اور نہیں دیکھا: سابق سویت یونین کا ایک خفیہ مضبوط خطہ جہاں نوجوان لوگ آج بھی ریستورانوں میں ایک دوسرے سے کم آواز میں بات کرتے ہیں تاکہ انہیں ارد گرد کا کوئی اور شخص نہ سنے، لیکن یہ 'نامیاتی فارم سے اپنی میز تک' کی اپنی روشن فکری کی باتوں کو کسی غیر ملکی کے سامنے بڑے جوش و خروش کے ساتھ بیان کرتے ہیں، جہاں قومی مجموعی پیداوار میں 300 فیصد اضافے کے باوجود سرکاری ملازمین گزشتہ پندرہ برسوں سے ہر ہفتے کی چھٹی کے دن بغیر کسی اجرت کے کام کرتے ہیں، اور جس کے شہری ایک نبی کے ساتھ اپنا تاریخی رشتہ بہت فخر کے ساتھ جوڑتے ہیں جو کسی دور دراز علاقے سے یہاں اپنی کشتی میں پہنچا تھا اور جہاں آج کی مقامی حکومت اپنے آپ کو اب خود سے محصور کیے ہوئے ہے۔

میں یقین سے نہیں کہہ سکتا ہوں کہ مقامی غذا کو کھانے والے اس خطے کا کیا مستقبل ہے لیکن میں امید کرتا ہوں کہ یہ اپنے دروازے کھلے رکھے گا تاکہ میں ان میں خود مزید دریافت کرسکوں۔


No comments

Post a Comment

Comment with in Society Respect....

Thanks

Don't Miss
© all rights reserved
made with by Sajid Sarwar Sajid