Responsive Ad Slot

test banner

Latest

epicks

دو بڑی موبائل کمپنیوں کے لائسنس کی معیاد 25مئی کو ختم ہوجائیگی



اسلام آباد(مہتاب حیدر)دو بڑی موبائل کمپنیوں کے لائسنس کی معیاد 25مئی کو ختم ہوجائے گی۔اس حوالے سے حکومت اب تک پالیسی بنانے میں ناکام ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس ضمن میں کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔تاہم اس صورت حال سے موبائل آپریٹرز سخت پریشان ہیں۔تفصیلات کے مطابق،دو بڑے موبائل آپریٹرز کے لائسنس کی معیاد25مئی کو ختم ہوجائیں گے اور اب تک حکومت نے موبائل آپریٹرز کے لیے تجدید پالیسی ہدایت نامے کی منظوری نہیں دی ہے۔مختلف محکموں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے یہ مسئلہ تاخیر کا شکار ہے ، جو کہ حکومت کے لیے لاکھوں ڈالرز کے داخلی بہائو کا ذریعہ ہے۔تین موبائل کمپنیو ں ٹیلی نار، وارد(جو کہ اب موبی لنک، جیز میں ضم ہوچکی ہے)اور ژونگ کے لائسنسوں کی ابتدائی 15سال کی معیاد 2019میں ختم ہوجائے گی۔ٹیلی نار اور جیز کے لائسنس کی معیاد رواں ماہ 25مئی کو پوری ہوجائے گی ، جب کہ ژونگ کا لائسنس رواں سال اکتوبر میں ختم ہوگا۔تاہم، اب تک اس حوالےسے کسی پالیسی فریم ورک کو حتمی شکل نہیں دی گئی ہے۔

وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی لائسنس کی تجدید کے حوالے سے پالیسی فریم ورک بنانے کی ذمہ دار ہے، جب کہ پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)اس پالیسی پر عمل درآمد کی ذمہ دار ہے۔ملک میں سیاسی تبدیلی اور اہم عہدوں کے خالی ہونے کے باعث انفارمیشن میمورنڈم کو حتمی شکل نہیں دی جاسکی کیوں کہ اس کے لیے کنسلٹنٹ کی ضرورت تھی ۔تاہم ، یہ عمل وقت پر مکمل نہیں ہوسکتا۔حکومت نے اس ضمن میں وزارتی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو لائسنس کی تجدید کے لیے وقت کی کمی کی وجہ سے قیمت کی بنیاد پر فیصلہ کرے گی ۔وزارت آئی ٹی کے ایک اعلیٰ عہدیدا ر سے جب دی نیوز نے رابطہ کیا تو اس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شر ط پر بتایا کہ وزارت آئی ٹی نے وفاقی کابینہ کو ایک سمری بھجوائی ہے ، جس نے اس حوالے سے ایک وزارتی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ان سے جب کمیٹی سے متعلق تفصیلات پوچھی گئی تو انہوں نے بتانے سے انکار کردیا۔دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ قیمتوں کے حوالےسے کابینہ ارکان کی رائے مختلف ہے۔پالیسی میں تاخیر کی وجہ سے موبائل آپریٹرز خاصے پریشان ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ عام طور پر حکومتیں لائسنس کی معیاد پوری ہونے سے چھ ماہ قبل اس طرح کے فیصلے کرلیتی ہیں۔یہ بات بہت حیرت انگیز ہے کہ صرف تین ہفتے باقی رہ گئے ہیں اور حکومت نے اب تک پالیسی نہیں بنائی ہے۔موبائل آپریٹرز نے حکومت کو اس حوالے سے متعد د مرتبہ یاددہانی کرائی ہے کہ گزشتہ ایک دہائی سے سیلولر ٹیلی کام کی صنعت میں ترقی دیکھی گئی ہے ، جب کہ دیگر شعبوں میں معیشت گرتی رہی ہے۔اس کی ترقی کی ایک اہم وجہ غیر ملکی زرمبادلہ ہے کیوں کہ چار میں سے تین موبائل آپریٹرز غیر ملکی سرمایہ کاروں کی ملکیت میں ہیں۔جب کہ چوتھی موبائل کمپنی کے 26فیصد حصص بھی غیر ملکی سرمایہ کار کی ملکیت میں ہیں۔فکس لائن آپریٹرز کے لائسنس کے برعکس یہ لائسنس 900اور 1800میگا ہرٹزبینڈ کے ہوتے ہیں ، جس کی بہترین مارکیٹ قیمت ہے۔ٹیلی نار اور وارد کے لائسنس کی معیاد 25مئی ،2019کو مکمل ہورہی ہے ، تاہم یہ حکومت کی ناکامی ہے کہ اس نے اس حوالے سے کوئی پالیسی تشکیل نہیں دی ہے کہ موجودہ اور نئی موبائل کمپنیوں کو لائسنس دیا جاسکے۔موبائل کمپنیوں اور حکومت کے درمیان اصل مسئلہ تجدید شدہ لائسنس کی قیمت کا ہے۔حکومتی ذرائع کے مطابق ، تجدید شدہ لائسنس کی فی میگا ہرٹز قیمت 2016اور 2017کی نیلامی کے لیے متعین کیے گئے بینچ مارکس کے مطابق ہوگی یعنی 900میگاہرٹز اور 1800میگا ہرٹز کے لیے 3کروڑ95لاکھ ڈالرز اور 2کروڑ 95لاکھ ڈالرز ، جب کہ موبائل کمپنیوں کا اصرار ہے کہ وہ وہی قیمت ادا کرنا چاہتی ہیں جو ایک اور موبائل کمپنی نے اسی فریکوئنسی کے بینڈ کے لائسنس کے اجرا کے لیے 2014میں ادا کی تھی۔حکومت کی جانب سے نئی پالیسی ہدایت نامہ برائے لائسنس کی تجدید/نیلامی میں تاخیر کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کار اپنی سرمایہ کاری پالیسی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہوجائیں گے ۔جس سے پاکستان میں کاروبار کے رجحان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ، وہ بھی ایسے موقع پر کہ جب معیشت کو پہلے ہی مشکلات کا سامنا ہے۔ذرائع کے مطا بق ، اسی سے متعلق ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پی ٹی اے نے جتنے لائسنس جاری کیے ہیں وہ حکومت کی موجودہ پالیسیوں کے مطابق ہیں۔ان لائسنسوں کے تحت فریکوئنسی سپیکٹرم کے موثر استعمال کے لئےغیر جانبدار ٹیکنالوجی فراہم کرنے کا کہا گیا تھا۔تاہم ، حکومت کے دیگر محکموں کی مداخلت ، جس میں حکومتی پالیسی اور پی ٹی اے پر اعتراضا ت کیے گئے ہیں ، اس سے ٹیلی کام صنعت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

بشکریہ جیونیوز

No comments

Post a Comment

Comment with in Society Respect....

Thanks

Don't Miss
© all rights reserved
made with by Sajid Sarwar Sajid