
ہسپتال میں چیک والے کشمیری لباس میں ایک 30 سالہ شخص خاموشی سے سر جھکائے بیٹھا ہوا ہے۔ اس نے سر پر اونی ٹوپی اور ہاتھوں دستانے بھی پہن رکھے ہیں اور اس کے ہاتھوں میں ڈپریشن کے علاج کی پرچی ہے جس پر اس کا نام لکھا ہوا ہے۔ تعارف کے بعد جب ان کا حال پوچھا تو انھوں نے آہستہ سے سر اٹھایا تو بڑی گہری آنکھیں اور غم میں ڈوبا ہوا اداس چہرہ نظر آيا۔
'یہ دیکھو، میری کیا حالت ہو گئی ہے! میں ڈپریشن میں ہوں'۔
میں نے آہستہ سے ایک بار پھر صحت کے بارے میں دریافت کیا۔ اس بار اس نے کہا: کیا بتاؤں؟ کہاں سے شروع کروں؟ چلیے آپ کو کل رات کے بارے میں بتاتا ہوں۔ ابھی جو رات گزار کر ہسپتال آیا ہوں۔ دس بجے فوج ہمارے علاقے میں آئی اور محاصرہ کر لیا۔ صبح کی نماز تک تمام مردوں کو کھڑا رکھا۔ پھر وہی تفتیش، وہی تھپڑ۔ ہمارا کوئی قصور نہیں تھا۔ یہ
دیکھو، میرا کیا حال ہو گیا ہے! میں ڈپریشن میں ہوں۔'

تصویر کے کاپی رائٹBBC/MUKHTAR ZAHOOR
وادی میں پھیلی اداسی
اچانک اسی وقت کچھ مریضوں نے ہسپتال میں داخل ہونے کے لیے کیمپس کا مرکزی دروازہ کھولا، اندر آنے والی سرد ہوا کے جھونکے سے ہم دونوں لرز گئے۔ باہر برف پڑ رہی تھی۔
یہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سری نگر سے ایک گھنٹہ پر واقع پلوامہ ضلعے کا ایک سرکاری ہسپتال ہے۔ ہم ہسپتال کے چھوٹے سے 'دماغی صحت مرکز' میں موجود ہیں۔ وادی میں جاری اس برفیلی سردی میں بھی پلوامہ کے اس چھوٹے سے ذہنی صحت مرکز میں کشمیری مریضوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہے۔
صبح دس بجے سے شروع ہونے والے او پی ڈی میں نو بجے ہی تقریباً 50 پچاس سے زیادہ مریض قطار میں کھڑے ہیں۔
میں اور راشد اب بھی مرکزی دروازے کے اندر بنچ پر بیٹھے ہیں۔ اس نے بتایا: 'میں بجلی کا کام کرتا ہوں۔ میں پلوامہ شہر میں رہتا ہوں، لیکن میرے گاؤں کا نام وشبوک ہے۔ جب سے آرٹیکل 370 کو ہٹایا گيا ہے، میرا کام بہت کم ہو گیا ہے۔ یہاں رہنے والے سبھی لوگوں کا کام اور کاروبار ختم ہوا تو میرا کیونکر بچتا؟ پہلے دو ماہ تک تو کام مکمل طور پر بند رہا۔ میری تو عمر بھی کم ہے، مجھے تو ڈپریشن نہیں ہونی چاہیے تھی! لیکن اب ڈاکٹر کے پاس آیا ہوں کیونکہ میں ڈپریشن میں ہوں۔ سارا دن دل گھبراتا رہتا ہے۔ ڈراؤنے خواب آتے ہیں اور یاداشت بھی ختم ہونے لگی ہے۔'

تصویر کے کاپی رائٹBBC/MUKHTAR ZAHOOR
پلوامہ ضلعی ہسپتال میں ماہر نفسیات ڈاکٹر ماجد شفیع کی او پی ڈی میں یہ ایک بہت مصروف اور یخبستہ صبح ہے۔ جموں و کشمیر کو خصوصی آئینی درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کو ختم ہوئے پانچ ماہ گزر چکے ہیں۔ دریں اثنا جہاں وادی میں کئی ہفتوں تک فون بند رہے وہیں انٹرنیٹ خدمات آج تک معطل ہیں۔
جب تک ڈاکٹر ماجد مریضوں کو دیکھتے ہیں میں ان کے ساتھ گفتگو کا انتظار کرتی ہوں۔ شدید ذہنی تناؤ جیسے اداسی، افسردگی، خوفناک خواب آنا، نیند نہ آنا، پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی)، پسینہ آنا، یاد داشت جانا اور خود کو الگ تھلگ اور تنہا محسوس کرنے جیسی کیفیات سے متاثر مریض ڈاکٹر ماجد کے سامنے اپنی شکایات کا پلندہ کھول رہے ہیں۔
ڈاکٹر ان کے مسائل کو ہمدردی اور صبر سے سن رہے ہیں۔ اسی دوران وہ افسردگی کے عالم میں رونے والی ایک کشمیری خاتون کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھتے ہیں اور تسلی دیتے ہیں۔ ڈاکٹر ماجد کی آنکھیں بھی نم ہو جاتی ہیں۔

تصویر کے کاپی رائٹBBC/MUKHTAR ZAHOOR
پلوامہ میں ڈپریشن کے مریضوں میں 150 فیصد اضافہ
ڈاکٹر ماجد کہتے ہیں کہ کشمیر سنہ 1989 سے ہی ذہنی صحت کی ہنگامی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ اس دوران جب بھی یہاں صورتحال خراب ہوئی ہے جیسے 2008 ، 2010 اور 2016 کے مظاہرے یا اب آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد، اس طرح کے ہر بڑے اتار چڑھاؤ کے دوران تشدد اور تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
لوگوں کی نفسیات پر آرٹیکل 370 کے خاتمے کے اثرات کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا: 'ایک عام کشمیری نے اس طرح اچانک آرٹیکل 370 کے ہٹائے جانے کو اپنی شناخت اور شہریت پر حملہ کے طور پر لیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ پیر کے دن ہی اس کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس دن میرے پاس او پی ڈی تھی لیکن اچانک ٹریفک کے ساتھ ساتھ فون کی سہولیات بند ہونے کی وجہ سے لوگ ہسپتال نہیں پہنچ سکے۔ جو اسپتال میں تھے ان کے چہروں پر اداسی تھی۔ پانچ اگست کے بعد یہاں کے لوگ بہت دنوں تک مسکرا نہیں سکے۔ اس کے بعد میں نے جو سارے مریضوں کو ابتدائی طور پر دیکھا تھا انھوں نے ایسے سوالات اٹھائے جیسے 'آگے کیا ہوگا، ہمارا مستقبل کیا ہے؟' ہر ایک گہرے صدمے میں تھا۔'
اس کے بعد رفتہ رفتہ جب ٹریفک اور دیگر پابندیوں میں نرمی کی گئی اور مریضوں نے آنا شروع کیا تو ڈاکٹر ماجد کے اپنے او پی ڈی میں ہی آنے والے مریضوں کی تعداد میں ڈیڑھ گنا اضافہ ہو گيا۔
انھوں نے کہا: 'پہلے جہاں 70 سے 100 مریض آتے تھے اب ان کی تعداد 200 ہو گئی ہے۔ یہ تقریباً 150 فیصد کا اضافہ ہے۔ ابتدائی طور پر اس ہسپتال میں ایک کوآپریٹو دکان کے علاوہ دوا کی تقریباً ساری دکانیں بھی آٹھ ہفتوں تک بند رہیں۔ اس کے بعد جب مریضوں نے آنا شروع کیا تو وہ مستقبل کا خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ ان میں اضطراب یا افسردگی یا ڈپریشن سب سے زیادہ ہے۔'

تصویر کے کاپی رائٹBBC/MUKHTAR ZAHOOR
مستقل ٹراما
ڈاکٹر ماجد نے بتایا کہ ان کے مریضوں میں سب سے زیادہ خوف 'اٹھائے جانے' کا ہے۔ 27 نومبر کو پارلیمان میں دیئے گئے ایک بیان میں وزیر مملکت برائے داخلہ امور کرشنا ریڈی نے اعتراف کیا کہ پانچ اگست کو آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے بعد حکومت نے کشمیر میں 'احتیاطی نظربندی' کے طور پر 5161 افراد کو حراست میں لیا تھا۔ حکومت کے مطابق ان میں سے 609 افراد اب تک حراست میں ہیں۔
ڈاکٹر ماجد اس حالت کو 'مستقل ٹراما' قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: 16-17 سال کے لڑکے میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انھیں گھبراہٹ ہے، وہ سو نہیں پا رہے ہیں۔ انھیں ایک ہی چیز کا خوف ہے کہ انھیں پوچھ گچھ کے لیے اٹھایا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں اٹھایا لیا جاتا ہے۔ جب یہ جذباتی زخم بار بار ملتے ہیں تو وہ ذہن پر گہرا نشان چھوڑ دیتے ہیں۔ لہذا کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ پوسٹ ٹراما یا پی ٹی ایس ڈی صورتحال نہیں ہے بلکہ ایک مستقل صدمہ ہے۔
ڈاکٹر ماجد نے بتایا کہ ان کے مریضوں میں سب سے زیادہ خوف 'اٹھائے جانے' کا ہے۔ 27 نومبر کو پارلیمان میں دیئے گئے ایک بیان میں وزیر مملکت برائے داخلہ امور کرشنا ریڈی نے اعتراف کیا کہ پانچ اگست کو آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے بعد حکومت نے کشمیر میں 'احتیاطی نظربندی' کے طور پر 5161 افراد کو حراست میں لیا تھا۔ حکومت کے مطابق ان میں سے 609 افراد اب تک حراست میں ہیں۔
ڈاکٹر ماجد اس حالت کو 'مستقل ٹراما' قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: 16-17 سال کے لڑکے میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انھیں گھبراہٹ ہے، وہ سو نہیں پا رہے ہیں۔ انھیں ایک ہی چیز کا خوف ہے کہ انھیں پوچھ گچھ کے لیے اٹھایا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں اٹھایا لیا جاتا ہے۔ جب یہ جذباتی زخم بار بار ملتے ہیں تو وہ ذہن پر گہرا نشان چھوڑ دیتے ہیں۔ لہذا کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ پوسٹ ٹراما یا پی ٹی ایس ڈی صورتحال نہیں ہے بلکہ ایک مستقل صدمہ ہے۔

تصویر کے کاپی رائٹBBC/MUKHTAR ZAHOOR
'سکیورٹی دائرہ کے باہر'
ذہنی پریشانیوں سے دوچار مریضوں کے لیے 'حفاظتی دائرے' کی اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: 'الجھی ہوئی ذہنی حالت میں مریض دو قسم کے خطرے کا احساس کر سکتے ہیں۔ ایک 'اصلی خطرہ' ہے اور دوسرا 'خوف' ہے یعنی ان کے ذہن میں خوف کا سایہ ہے۔ '
انھوں نے کہا کہ جب امریکی فوجی عراق میں جنگ لڑنے گئے تو وہ وہاں طویل عرصے تک پر تشدد فضا میں رہے۔ لیکن جب بھی وہ اپنے ملک لوٹے تو انھیں احساس ہوا کہ وہ 'اپنے گھر میں' ہیں اور محفوظ ہیں۔
لیکن کشمیر کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'یہاں کوئی 'سیفٹی نیٹ' نہیں ہے جہاں لوگ یہ محسوس کرسکیں کہ وہ اب تشدد کے دائرے سے باہر ہیں۔ لہذا یہاں کے لوگ بار بار اپنے مستقبل کے متعلق خوفزدہ رہتے ہیں۔ یہاں لوگوں میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے متعلق اب تک کنفیوژن اور خوف ہے۔ لوگ مجھ سے باربار پوچھتے ہیں کہ اب ہمارے ساتھ کیا ہوگا؟'
ذہنی پریشانیوں سے دوچار مریضوں کے لیے 'حفاظتی دائرے' کی اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: 'الجھی ہوئی ذہنی حالت میں مریض دو قسم کے خطرے کا احساس کر سکتے ہیں۔ ایک 'اصلی خطرہ' ہے اور دوسرا 'خوف' ہے یعنی ان کے ذہن میں خوف کا سایہ ہے۔ '
انھوں نے کہا کہ جب امریکی فوجی عراق میں جنگ لڑنے گئے تو وہ وہاں طویل عرصے تک پر تشدد فضا میں رہے۔ لیکن جب بھی وہ اپنے ملک لوٹے تو انھیں احساس ہوا کہ وہ 'اپنے گھر میں' ہیں اور محفوظ ہیں۔
لیکن کشمیر کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'یہاں کوئی 'سیفٹی نیٹ' نہیں ہے جہاں لوگ یہ محسوس کرسکیں کہ وہ اب تشدد کے دائرے سے باہر ہیں۔ لہذا یہاں کے لوگ بار بار اپنے مستقبل کے متعلق خوفزدہ رہتے ہیں۔ یہاں لوگوں میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے متعلق اب تک کنفیوژن اور خوف ہے۔ لوگ مجھ سے باربار پوچھتے ہیں کہ اب ہمارے ساتھ کیا ہوگا؟'

تصویر کے کاپی رائٹBBC/MUKHTAR ZAHOOR
'خواب میں بھی فوج کے سوالوں کا جواب دیتا ہوں'
ہسپتال کے باہر برف پڑ رہی ہے۔ پلوامہ شہر کی عمارتوں کی بالکونی پر برف کی سفید چادریں بچھ گئی ہیں۔ مینٹل ہیلتھ سنٹر کے باہر 31 سالہ شفق ابھی ڈاکٹر کے پاس سے نسخہ لے کر آئے ہیں۔ نام اور تصویر شائع نہ کرنے کی شرط پر وہ اپنی کہانی شیئر کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔
پلوامہ کے گاؤں چک پورہ کے رہائشی شفق کے بڑے بھائی شدت پسند گروہ میں شامل ہو گئے تھے اور مارے گئے تھے۔
وہ سر جھکائے کہتے ہیں: 'فوج نے مجھ پر زیادتی نہیں کی لیکن یہاں کشمیر میں میری زندگی خود اس قسم کے مشکلات میں الجھ رہی کہ آج میں ڈپریشن کا شکار ہوں۔'

تصویر کے کاپی رائٹBBC/MUKHTAR ZAHOOR
'دراصل میرے بھائی نے اکتوبر 2017 میں گھر چھوڑ دیا۔ پھر اگلے مہینے ہمیں معلوم ہوا کہ وہ باغی ہوگیا ہے۔ وہ پندرہ ماہ تک عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ سرگرم تھا اور فروری 2019 میں اسے مارا گیا تھا۔ اس وقت سے مجھے بھی ہر ہفتے اپنے گاؤں کے قریب واقع آرمی کیمپ میں پوچھ گچھ کے لئے بلایا جانے لگا۔ میں جاتا ہوں، وہ سوال پوچھتے ہیں، میں جواب دیتا ہوں۔ عسکریت پسندوں کو تحفظ فراہم کرنے کے مقدمے بھی جاری ہیں۔ جبکہ کوئی بھی یہاں بندوق کی نوک پر کسی کے گھر میں داخل ہوسکتا ہے۔ میں بھی ہر مہینے سماعت کے لیے جاتا ہوں۔'
بھائی کے شدت پسند ہو جانے، مارے جانے اور پھر عدالت سے پولیس سٹیشن کے چکر نے شفق کی زندگی کا محور بدل دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: 'میں اپنے خوابوں میں بھی آرمی افسر کے سوالوں کا جواب دیتا رہتا ہوں۔ نیند نہیں آتی۔ جب آتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ وہاں کوئی دھماکا ہوگا اور پورا گھر مجھ پر ٹوٹ کر آ گرے گا اور میں مر جاؤں گا۔'

تصویر کے کاپی رائٹBBC/MUKHTAR ZAHOOR
اریہل گاؤں کا بجھی آنکھوں والا لڑکا
دوپہر کے وقت بھی ایسا لگتا ہے کہ پلوامہ ڈھلتے سورج کی روشنی میں ڈوبا رہتا ہے۔ پلوامہ کے سرکاری ہسپتال سے دس کلومیٹر آگے اب ہم اس ضلع کے اریہل گاؤں میں موجود ہیں۔
خاموشی سے گرنے والی برف نے اس پورے گاؤں کو سفید چادروں سے ڈھک دیا ہے۔ شناخت ظاہر کیے جانے کے بعد ڈرتے ڈرتے وسیم شیخ ہمیں مرکزی سڑک سے ایک کلومیٹر دور اپنے گھر لے گئے۔ ان کے گھر جانے کا راستہ دو فٹ برف سے ڈھکا ہوا ہے۔
گھر کی ملاقات میں 19 سالہ سلیم جالی دار کشمیری پردے کے پاس سر جھکائے بیٹھے ہیں۔ سنہ 2016 میں سلیم دسویں کے امتحانات کے دوران پلوامہ میں ایک احتجاج میں پھنس گئے اور ان کی ایک آنکھ میں پیلٹ گن کی زد میں آ گئی۔
دوپہر کے وقت بھی ایسا لگتا ہے کہ پلوامہ ڈھلتے سورج کی روشنی میں ڈوبا رہتا ہے۔ پلوامہ کے سرکاری ہسپتال سے دس کلومیٹر آگے اب ہم اس ضلع کے اریہل گاؤں میں موجود ہیں۔
خاموشی سے گرنے والی برف نے اس پورے گاؤں کو سفید چادروں سے ڈھک دیا ہے۔ شناخت ظاہر کیے جانے کے بعد ڈرتے ڈرتے وسیم شیخ ہمیں مرکزی سڑک سے ایک کلومیٹر دور اپنے گھر لے گئے۔ ان کے گھر جانے کا راستہ دو فٹ برف سے ڈھکا ہوا ہے۔
گھر کی ملاقات میں 19 سالہ سلیم جالی دار کشمیری پردے کے پاس سر جھکائے بیٹھے ہیں۔ سنہ 2016 میں سلیم دسویں کے امتحانات کے دوران پلوامہ میں ایک احتجاج میں پھنس گئے اور ان کی ایک آنکھ میں پیلٹ گن کی زد میں آ گئی۔

تصویر کے کاپی رائٹBBC/MUKHTAR ZAHOOR
مجھ جیسے بہت سے لڑکے
وہ وضاحت کرتے ہیں: 'اس وقت برہان وانی کے انکاؤنٹر کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے۔ میں کسی پتھراؤ یا احتجاج میں شامل نہیں تھا، صرف غلط وقت پر غلط جگہ پر پھنس گیا۔'
لیکن بات اسی پر ختم نہیں ہوئی۔ مئی 2019 میں پڑوسی گاؤں کے ایک جنازے میں شرکت کے لیے جانے والے سلیم ایک بار پھر فوج اور مظاہرین کے مابین جاری تصادم میں پھنس گئے۔ اس بار ان کی دوسری آنکھ کے ساتھ ان کے چہرے اور جسم میں بہت سارے چھرے لگے۔
سلیم کے والد مجھے اپنے فون کی سکرین پر دو تصاویر دکھاتے ہیں۔ ایک میں ان کے بیٹے کا خون آلود چہرہ ہے اور دوسرے میں اس واقعے سے پہلے کی ایک تصویر ہے جس میں سلیم دھوپ کا چشمہ لگائے آدھی بازو کی کالی ٹی شرٹ میں نظر آتا ہے۔ بالوں میں انگلیاں گھماتا ایک عام نوجوان۔ تصاویر دیکھ کر پاس کھڑی سلیم کی والدہ رونے لگتی ہیں۔
وہ وضاحت کرتے ہیں: 'اس وقت برہان وانی کے انکاؤنٹر کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے۔ میں کسی پتھراؤ یا احتجاج میں شامل نہیں تھا، صرف غلط وقت پر غلط جگہ پر پھنس گیا۔'
لیکن بات اسی پر ختم نہیں ہوئی۔ مئی 2019 میں پڑوسی گاؤں کے ایک جنازے میں شرکت کے لیے جانے والے سلیم ایک بار پھر فوج اور مظاہرین کے مابین جاری تصادم میں پھنس گئے۔ اس بار ان کی دوسری آنکھ کے ساتھ ان کے چہرے اور جسم میں بہت سارے چھرے لگے۔
سلیم کے والد مجھے اپنے فون کی سکرین پر دو تصاویر دکھاتے ہیں۔ ایک میں ان کے بیٹے کا خون آلود چہرہ ہے اور دوسرے میں اس واقعے سے پہلے کی ایک تصویر ہے جس میں سلیم دھوپ کا چشمہ لگائے آدھی بازو کی کالی ٹی شرٹ میں نظر آتا ہے۔ بالوں میں انگلیاں گھماتا ایک عام نوجوان۔ تصاویر دیکھ کر پاس کھڑی سلیم کی والدہ رونے لگتی ہیں۔

تصویر کے کاپی رائٹBBC/MUKHTAR ZAHOOR
بغیر بینائی کے اپنی زندگی کے صدمے کے بارے میں بات کرتے ہوئے سلیم کہتے ہیں: 'میرے گاؤں میں مجھ جیسے اور بھی بہت سے لڑکے ہیں جنھیں پیلٹ گنز لگی ہیں۔ میرے اب تک آٹھ آپریشن ہوچکے ہیں، ڈاکٹر کہتے ہیں کہ روشنی واپس آنے کی امید بہت ہی کم ہے۔ میں سارا دن افسردہ رہتا ہوں۔'
دو منٹ تک سر جھکائے بیٹھے سلیم نے اچانک کہا: 'مجھے بھی شوق تھا۔۔۔کچھ بننے کا۔۔۔ کرکٹ کھیلنے کا۔۔۔ جم جانے کا۔۔۔ کشتی کا۔۔۔ لیکن اب میری زندگی برباد ہوگئی ہے۔ والدین کب تک میرا خیال رکھیں گے؟ کون سی لڑکی مجھ سے شادی کر کے اپنی زندگی خراب کرنا چاہے گی؟ یہ میری کچھ کرنے کی عمر تھی اور میں نابینا بنا بیٹھا ہوں۔ سارا دن درد سے سر پھٹتا رہتا ہے۔ کچھ نہیں دیکھ سکتا۔ نہ مجھے بھوک لگتی ہے، نہ پیاس ہے اور نہ ہی نیند ہے۔ بس دل گھبراتا رہتا ہے۔'

تصویر کے کاپی رائٹBBC/MUKHTAR ZAHOOR
'وادی کی تقریباً نصف آبادی ڈپریشن کا شکار ہے'
اگست سنہ 2019 میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد معروف برطانوی میڈیکل جریدے 'لانسیٹ' نے اپنے ایک ادارتی مضمون میں ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے عوام کی ذہنی صحت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہاں کے عوام کئی دہائیوں سے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔ اقتصادی خوشحالی سے پہلے لوگوں کو پرانے ذہنی زخموں سے نجات چاہیے۔
میگزین کے مطابق آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے فیصلے سے مقامی لوگ تشدد اور علیحدگی پسندی کے ایک نئے چکر میں پھنس سکتے ہیں۔ اگرچہ انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن نے اس اداریے کو سختی سے مسترد کردیا تھا لیکن طبی دنیا میں کشمیریوں کی ذہنی صحت کے بارے میں یہ پہلا تبصرہ نہیں تھا۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے 'ڈاکٹرز وداؤٹ بارڈرز' نے مئی سنہ 2016 میں شائع ہونے والی ایک تفصیلی رپورٹ میں بتایا تھا کہ وادی میں مقیم 41 فیصد افراد ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔
ان اطلاعات کی اشاعت سے ایک دہائی قبل بھی وہاں کے حالات بہت اچھے نہیں تھے۔ سنہ 2006 میں شائع ہونے والے اپنے تحقیقی مقالے میں ماہر نفسیات ڈاکٹر مشتاق مگروب کا کہنا ہے کہ 'اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے پندرہ سالوں میں کشمیر میں شدید افسردگی، تناؤ اور پی ٹی ایس ڈی کے مریضوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
سری نگر میں ذہنی مریضوں کی تعداد میں اضافہ
ہماری کار پلوامہ سے واپس پر دارالحکومت سری نگر کی طرف مڑ چکی ہے۔ یہاں انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز (ایمہانس) سے وابستہ ایک سینیئر ماہر نفسیات نے بی بی سی کو اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مذکورہ تحقیقی مقالوں میں موجود تمام حقائق درست ہیں۔
وہ کہتے ہیں: 'جب ہم نے سنہ 1990 میں ذہنی صحت کا یہ مرکز شروع کیا تھا اس وقت سے ہر سال یہاں صرف 2000 مریض آتے ہیں۔ آج ہمارے سرکاری مرکز میں ایک لاکھ مریض آ رہے ہیں اور علاج کے لیے اندراج کر رہے ہیں۔ میں ان ایک لاکھ افراد میں محکمہ چائلڈ سائیکالوجی کے مریضوں اور منشیات یا منشیات کے استعمال کے مریضوں کو شامل نہیں کررہا ہوں پھر بھی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد نازک صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: 'ٹریفک اور مواصلات کے تمام ذرائع بند کردیئے گئے تھے۔ لیکن جیسے ہی ٹریفک بحال ہوا، مریضوں کی تعداد میں ایک بار پھر اضافہ ہونے لگا۔ میں اپنی او پی ڈی میں ایک دن میں 250 سے زیادہ مریض دیکھ رہا ہوں۔ یہ بہت بڑا اضافہ ہے۔ 370 کے خاتمے کے چند ہی دنوں بعد میں نے دو ایسے مریضوں کا علاج کیا جنہوں نے صدمے، الجھنوں اور خوف میں مبتلا ہونے کی وجہ سے خودکشی کی کو شش کی۔ ایک نوجوان عورت ہے اور ایک کالج کی طالبہ ہے۔ ان دو مریضوں کو براہ راست اثر 370 کے خاتمے سے ہوا تھا۔
سری نگر کے ایمہانس میں اپنا علاج کروانے کے لیے پوری وادی سے لوگ آتے ہیں۔ تعداد میں اضافے کے متعلق ڈاکٹر کہتے ہیں: 'آج کشمیر میں ہم بہت سارے مریضوں (جیسے نیند کی گولیوں) کو نفسیاتی دوائیں دے رہے ہیں۔'

تصویر کے کاپی رائٹBBC/MUKHTAR ZAHOOR
خواتین میں افسردگی
سری نگر کے ایس ایم ایچ ایس ہسپتال میں آج برف باری ہو رہی ہے۔ یہاں ہماری ملاقات سب سے پہلے 23 سالہ صاحبہ سے ہوتی ہے جو نفسیاتی او پی ڈی میں بیٹھی ہیں۔ سری نگر میں بی ٹیک کی تعلیم حاصل کرنے والی صاحبہ پچھلے پانچ مہینوں سے ڈپریشن کا علاج کرا رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ سارا دن ان کا موڈ 'لو' یا غمزدہ رہتا ہے۔ 'میں سارا دن اپنے اندر ایک منفی توانائی محسوس کرتی ہوں۔ میں بی ٹیک کی تعلیم حاصل کررہی ہوں لیکن مجھے نہیں معلوم کہ میرا امتحان کب ہوگا، ہوگا بھی یا نہیں۔ اگر نہیں، تو میرا سال ضائع ہوجائے گا اور اگر ایسا ہے تو پھر میں امتحان کیسے دوں گی؟ ہماری تو کوئی پڑھائی نہیں ہوئی ہے یہاں اتنے مہینوں سے سب کچھ بند ہے۔
اپنی بیماری کے بارے میں کہتی ہیں: 'ہر وقت افسردگی رہتی ہے، لہذا میں یہاں دوا لینے آئی ہوں۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہاں کی سڑکیں فوج سے بھری ہوئی ہیں اور ذہن ڈپریشن سے جام ہے۔'
صاحبہ سے کچھ ہی فاصلے پر سری نگر کے لال بازار سے آنے والی 21 سالہ نوشید بیٹھیں ہیں۔ اپنے نمبر کا انتظار کرنے والی نوشید کو ڈپریشن اور صدمے کی شکایت ہے۔ پیلے اداس چہرے کے ساتھ فرش کی طرف مسلسل دیکھتے ہوئے وہ کہتی ہیں: 'میں گریجویشن کر رہی ہوں لیکن مجھے نہیں معلوم کہ میں اپنا کورس مکمل کر پاؤں گا یا نہیں۔ کلاسز بند ہیں۔ یہ سوچتی رہتی ہوں کہ آگے کیا ہوگا۔'
سری نگر کے ایس ایم ایچ ایس ہسپتال میں آج برف باری ہو رہی ہے۔ یہاں ہماری ملاقات سب سے پہلے 23 سالہ صاحبہ سے ہوتی ہے جو نفسیاتی او پی ڈی میں بیٹھی ہیں۔ سری نگر میں بی ٹیک کی تعلیم حاصل کرنے والی صاحبہ پچھلے پانچ مہینوں سے ڈپریشن کا علاج کرا رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ سارا دن ان کا موڈ 'لو' یا غمزدہ رہتا ہے۔ 'میں سارا دن اپنے اندر ایک منفی توانائی محسوس کرتی ہوں۔ میں بی ٹیک کی تعلیم حاصل کررہی ہوں لیکن مجھے نہیں معلوم کہ میرا امتحان کب ہوگا، ہوگا بھی یا نہیں۔ اگر نہیں، تو میرا سال ضائع ہوجائے گا اور اگر ایسا ہے تو پھر میں امتحان کیسے دوں گی؟ ہماری تو کوئی پڑھائی نہیں ہوئی ہے یہاں اتنے مہینوں سے سب کچھ بند ہے۔
اپنی بیماری کے بارے میں کہتی ہیں: 'ہر وقت افسردگی رہتی ہے، لہذا میں یہاں دوا لینے آئی ہوں۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہاں کی سڑکیں فوج سے بھری ہوئی ہیں اور ذہن ڈپریشن سے جام ہے۔'
صاحبہ سے کچھ ہی فاصلے پر سری نگر کے لال بازار سے آنے والی 21 سالہ نوشید بیٹھیں ہیں۔ اپنے نمبر کا انتظار کرنے والی نوشید کو ڈپریشن اور صدمے کی شکایت ہے۔ پیلے اداس چہرے کے ساتھ فرش کی طرف مسلسل دیکھتے ہوئے وہ کہتی ہیں: 'میں گریجویشن کر رہی ہوں لیکن مجھے نہیں معلوم کہ میں اپنا کورس مکمل کر پاؤں گا یا نہیں۔ کلاسز بند ہیں۔ یہ سوچتی رہتی ہوں کہ آگے کیا ہوگا۔'

تصویر کے کاپی رائٹBBC/MUKHTAR ZAHOOR
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وادی کشمیر میں ہر 100 میں سے 15 خواتین ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ مردوں کے مقابلے میں سات گنا زیادہ خواتین افسردگی کا شکار ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ خواتین کا دائرہ نسبتاً محدود ہے۔ اپنی پریشانی کو بتانے اور بانٹنے کے لیے ان کے پاس نسبتاً راستے کم ہیں۔ اور اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہیں۔
گرتی ہوئی برف کے درمیان سری نگر کے رہائشی علاقے میں ایک کثیر المنزلہ عمارت کے سامنے لوہے کے بڑے سے گیٹ کے باہر مجھے لینے کے لیے شمع آتی ہیں اور خاموشی سے عمارت کی تیسری منزل پر لے جاتی ہیں۔
یہ سرینگر میں رہ کر امتحانات کی تیاری کرنے والی لڑکیوں کا ایک ہاسٹل ہے اور شمع اپنی سخت وارڈن سے بچا کر ہمیں اپنے کمرے میں لے آئی ہیں۔ کمرے میں ان کی روم میٹ صائمہ بھی ہے۔ کمرے میں ٹھنڈ ہے۔ لیکن وہ دونوں فوراً مجھے اپنے بستر پر بٹھا کر میرے پیروں پر کمبل ڈالتی ہیں اور مجھے ایک گلاس گرم پانی دیتی ہیں۔

تصویر کے کاپی رائٹBBC/MUKHTAR ZAHOOR
شمع اور صائمہ اپنی میڈیکل کی تعلیم شروع کرنے کے لیے این ای ای ٹی امتحان کی تیاری کے لیے ضلع شوپیان سے یہاں آئی ہیں۔ بات چیت شروع کرنے سے پہلے ہی ہاسٹل کی بجلی چلی جاتی ہے۔
موبائل سے ٹارچ جلاتے ہوئے شمع نے کہا: 'میں سیبوں کے شہر ایپل ٹاؤن سے ہوں۔ میں یہاں تعلیم حاصل کرنے آئی ہوں لیکن اب صورتحال اتنی خراب ہوگئی ہے کہ میں ہر وقت افسردہ رہتی ہوں۔ این ای ای ٹی کے امتحانات بہت مشکل ہیں۔ ہماری بنیاد بہت کمزور ہے۔ کلاس الیون مناسب طریقے سے نہیں کی تھی کیونکہ اس وقت کلاسز نہیں لگیں۔'
ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے صائمہ اس مشکل راستے کے بارے میں بتاتی ہیں جس پر اب یہ لڑکیاں چل رہی ہیں۔ 'ہم بہت معمولی خاندان سے ہیں۔ اگر ہم اس بار امتحان میں کامیاب نہیں ہوسکے تو شاید ہمارے لیے تمام راستے بند ہوجائیں گے۔ ہماری شادی ہو جائے گی۔ ویسے بھی گھر کے لوگ سری نگر میں تعلیم حاصل کرنے سے گھبراتے ہیں۔ جو بھی رقم خرچ ہوئی ہے، وہ الگ ہے۔'

تصویر کے کاپی رائٹBBC/MUKHTAR ZAHOOR
زخموں کی بہت سی پرتیں
لڑکیوں کے ہاسٹل سے نکل کر ریذیڈنسی روڈ پر ہماری ملاقات اکرم اور شاہد سے ہوئی۔ قدیم شہر میں پروان چڑھنے والے اکرم اور شاہد بچپن کے دوست ہیں۔
ان کی کہانی اس کشمیر کی تصویر ہے جس کے رہائشیوں کے سینے میں برسوں پرانے زخم اب بھی تازہ ہیں۔ اگر آپ کسی پر مرہم لگاتے ہیں تو دوسرا زخم رسنے لگتا ہے۔
دو مئی سنہ 1996 کو شاہد کے والد اور دادا دونوں ایک ساتھ اپنے گھر میں مارے گئے۔ اس دن کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: 'اس وقت سنہ 1996 کے انتخابات ہورہے تھے اور ہمارے گھر کے سامنے شہر میں ایک پولنگ بوتھ تھا۔ کہیں سے ایک شیل آ کر اس پولنگ بوتھ کے سامنے گرا۔ سکیورٹی اہلکاروں کو لگا کہ ہمارے گھر سے کوئی حرکت ہوئی ہے۔ وہاں سے فوراً ہی فائرنگ شروع ہوگئی اور گھر کے برامدے میں کھڑے میرے والد اور دادا دونوں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ میں اس وقت چھ سال کا تھا اور میری والدہ صرف 22 سال کی تھیں۔ اس وقت میری چھوٹی بہن صرف ایک ماہ کی تھی۔'
اگرچہ شاہد کی والدہ کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سرکاری ملازمت مل گئی لیکن وہ اور ان کے بیٹے شاہد شدید ڈپریشن میں ہیں۔ شاہد کہتے ہیں: 'ماں کو وہم گھیرے رہتے ہیں۔ رات کو نیند نہیں آتی۔ وہ ہمیشہ ڈپریشن میں رہتی ہیں۔ پچھلے بیس سالوں میں نہ جانے کتنے ماہر ڈاکٹر بدل چکے ہیں، میں انٹرنیٹ کمپنیوں کے ساتھ کام کرتا تھا، پچھلے پانچ ماہ سے وہ بھی بند ہے۔'
لڑکیوں کے ہاسٹل سے نکل کر ریذیڈنسی روڈ پر ہماری ملاقات اکرم اور شاہد سے ہوئی۔ قدیم شہر میں پروان چڑھنے والے اکرم اور شاہد بچپن کے دوست ہیں۔
ان کی کہانی اس کشمیر کی تصویر ہے جس کے رہائشیوں کے سینے میں برسوں پرانے زخم اب بھی تازہ ہیں۔ اگر آپ کسی پر مرہم لگاتے ہیں تو دوسرا زخم رسنے لگتا ہے۔
دو مئی سنہ 1996 کو شاہد کے والد اور دادا دونوں ایک ساتھ اپنے گھر میں مارے گئے۔ اس دن کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: 'اس وقت سنہ 1996 کے انتخابات ہورہے تھے اور ہمارے گھر کے سامنے شہر میں ایک پولنگ بوتھ تھا۔ کہیں سے ایک شیل آ کر اس پولنگ بوتھ کے سامنے گرا۔ سکیورٹی اہلکاروں کو لگا کہ ہمارے گھر سے کوئی حرکت ہوئی ہے۔ وہاں سے فوراً ہی فائرنگ شروع ہوگئی اور گھر کے برامدے میں کھڑے میرے والد اور دادا دونوں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ میں اس وقت چھ سال کا تھا اور میری والدہ صرف 22 سال کی تھیں۔ اس وقت میری چھوٹی بہن صرف ایک ماہ کی تھی۔'
اگرچہ شاہد کی والدہ کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سرکاری ملازمت مل گئی لیکن وہ اور ان کے بیٹے شاہد شدید ڈپریشن میں ہیں۔ شاہد کہتے ہیں: 'ماں کو وہم گھیرے رہتے ہیں۔ رات کو نیند نہیں آتی۔ وہ ہمیشہ ڈپریشن میں رہتی ہیں۔ پچھلے بیس سالوں میں نہ جانے کتنے ماہر ڈاکٹر بدل چکے ہیں، میں انٹرنیٹ کمپنیوں کے ساتھ کام کرتا تھا، پچھلے پانچ ماہ سے وہ بھی بند ہے۔'

تصویر کے کاپی رائٹAFP/GETTY IMAGES
معصوم بچوں کے ذہنوں پر گہرے داغ
کمیونٹی جنرل ہسپتال یونٹ کے چلڈرن سائیکیاٹری سینٹر میں کام کرنے والے پروگرام کے کونسلر سرمد نے بی بی سی کے ساتھ ایک تفصیلی گفتگو میں بتایا ہے کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کا وادی کے بچوں پر سب سے برا اثر پڑا ہے۔
وہ کہتے ہیں: 'یہ مرکز ابھی ابھی شروع ہوا ہے اور ابھی لوگ اس سے واقف ہیں۔ لیکن پھر بھی پچھلے 9 مہینوں میں، ہم نے یہاں علاج کے لیے 1500 بچوں کا اندراج کیا ہے۔ یہ ایک بڑی تعداد ہے کیونکہ کشمیر میں ابھی بھی ذہنی صحت کے بارے میں شعور اور معلومات بہت کم ہیں۔ کئی بار والدین کو یقین نہیں آتا ہے کہ ان کے بچوں کو مدد کی ضرورت ہے۔ یہاں اگر بچہ ذہنی دباؤ کا شکار ہے تو والدین کا خیال ہے کہ اس کی بینائی ختم ہوگئی ہے۔'
سرمد کا کہنا ہے کہ بچوں کا ذاتی سپیس چھین لیا گیا ہے۔ 'بڑوں کی طرح بچوں کی بھی اپنی جگہ ہوتی ہے۔ جیسے سکول، ٹیوشن، کھیل کا میدان وغیرہ۔ گھروں میں بند بچے اندر ہی اندر گھٹنے لگتے ہیں۔'
یہاں ہماری ملاقات ماجد اشرف میر سے ہوتی ہے جو اپنے چھ سالہ بیٹے کو لے کر ہسپتال آئے ہیں۔ بچے کی صحت کے بارے میں دریافت کرنے پر سرینگر کے رہائشی ماجد کا چہرہ اس طرح بجھ جاتا ہے جیسے ماضی کے کسی زخم سے ٹیس اٹھی ہو۔
کمیونٹی جنرل ہسپتال یونٹ کے چلڈرن سائیکیاٹری سینٹر میں کام کرنے والے پروگرام کے کونسلر سرمد نے بی بی سی کے ساتھ ایک تفصیلی گفتگو میں بتایا ہے کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کا وادی کے بچوں پر سب سے برا اثر پڑا ہے۔
وہ کہتے ہیں: 'یہ مرکز ابھی ابھی شروع ہوا ہے اور ابھی لوگ اس سے واقف ہیں۔ لیکن پھر بھی پچھلے 9 مہینوں میں، ہم نے یہاں علاج کے لیے 1500 بچوں کا اندراج کیا ہے۔ یہ ایک بڑی تعداد ہے کیونکہ کشمیر میں ابھی بھی ذہنی صحت کے بارے میں شعور اور معلومات بہت کم ہیں۔ کئی بار والدین کو یقین نہیں آتا ہے کہ ان کے بچوں کو مدد کی ضرورت ہے۔ یہاں اگر بچہ ذہنی دباؤ کا شکار ہے تو والدین کا خیال ہے کہ اس کی بینائی ختم ہوگئی ہے۔'
سرمد کا کہنا ہے کہ بچوں کا ذاتی سپیس چھین لیا گیا ہے۔ 'بڑوں کی طرح بچوں کی بھی اپنی جگہ ہوتی ہے۔ جیسے سکول، ٹیوشن، کھیل کا میدان وغیرہ۔ گھروں میں بند بچے اندر ہی اندر گھٹنے لگتے ہیں۔'
یہاں ہماری ملاقات ماجد اشرف میر سے ہوتی ہے جو اپنے چھ سالہ بیٹے کو لے کر ہسپتال آئے ہیں۔ بچے کی صحت کے بارے میں دریافت کرنے پر سرینگر کے رہائشی ماجد کا چہرہ اس طرح بجھ جاتا ہے جیسے ماضی کے کسی زخم سے ٹیس اٹھی ہو۔

تصویر کے کاپی رائٹAFP/GETTY IMAGES
وہ کہتے ہیں: 'جیل کس کو کہتے ہے؟ جہاں آپ اپنی مرضی سے باہر نہیں نکل سکتے ہیں، آپ کہیں بھی نہیں جا سکتے۔ اسی طرح میرا بیٹا گھر کی جیل میں بند ہے۔ پانچ اگست سے آج تک ہم نے اسے گھر سے باہر جانے نہیں دیا ہے۔'
اسی وقت ماجد کا بیٹا اپنا ہاتھ چـھڑوا کر او پی ڈی کے دالان میں دوڑنے لگتا ہے۔ ماجد سری نگر میں کپڑوں کے تاجر ہیں اور آج اپنی دکان بند کر کے اپنے بیٹے کو دکھانے آئے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں: 'گذشتہ تین مہینوں سے اس کے برتاؤ میں تبدیلی ہے۔ مجھ پر اور اپنی ماں پر بہت چیختا ہے، غصہ کرتا ہے۔ بار بار پوچھتا ہے کہ مجھے باہر کیوں نہیں جانے دیتے، مجھے باہر کیوں نہیں جانے دیتے؟ اب میں اس کو کیا جواب دوں! یہ کہتے ہوئے ماجد کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔
بچے کے برتاؤ کے سبب اس کی والدہ کا ذہنی توازن منتشر ہو رہا ہے۔ ماجد کا کہنا ہے کہ ان کی اہلیہ کو بھی طبی امداد کی ضرورت ہے لیکن انھوں نے سوچا کہ پہلے بچے کا علاج کروائیں۔

تصویر کے کاپی رائٹEPA
برف میں ڈھکے شوپیاں کا درد
سری نگر سے تقریباً 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہم اس وقت جنوبی کشمیر میں انتہا پسندی کا مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے شوپیاں ضلع کے ورپورہ گاؤں میں ہیں۔ شوپیاں میں اس وقت سری نگر اور پلوامہ دونوں جگہ سے کہیں زیادہ برف پڑ رہی ہے۔
پلوامہ سے آگے ورپورہ تک جانے والا راستہ برف کی سفید چادر سے ڈھکا ہے۔ فضا میں ایک برفیلی اداسی اور خاموشی بھی ہے۔ ہمیں اپنی کار کی آواز کے علاوہ دور کی ہوا کے سوا کوئی آواز نہیں سنائی دیتی ہے۔
ورپورہ گاؤں میں رحمت کے گھر پہنچنے کا راستہ برف پرپڑے چنار کے پتوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ 19 سالہ رحمت کی والدہ بیٹے کے پیلٹ گن کی زد میں آنے کے بعد سے ڈپریشن میں ہیں۔
سنہ 2016 کا وقت یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں: 'یہ برہان کے جانے کے فورا بعد کی بات ہے۔ یہاں زبردست احتجاج ہو رہے تھے۔ اسی دوران ایک صبح فوج گاؤں میں آئی اور مظاہرین کے ساتھ انکاؤنٹر کے دوران پیلیٹ گنز بھی چلائی۔ میری نظروں کے سامنے اس کی ایک آنکھ میں پیلیٹ لگی۔ کئی آپریشن کے بعد بڑی مشکل سے اس کی آنکھ قدرے ٹھیک ہوئی ہے۔ لیکن میں شاید ہمیشہ کے لیے بیمار ہو گئی ہوں۔
ورپورہ سے آگے ہمہونا گاؤں میں ہماری ملاقات رسول احمد سے ہوئی۔ جون 2017 میں انھیں 'آزادی' کے لیے جاری ایک مظاہرے میں خطاب کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ رسول احمد کہتے ہیں کہ انتظار ان کی زندگی کا مرکزی لفظ ہے۔ فیرن کے نیچے کنگری لیے کھڑے رسول احمد کہتے ہیں: 'دہائیوں سے یہاں لڑائی اور ہڑتال جاری ہے۔ میرے لڑکے کو گرفتار کیا گیا اس پر 16 مقدمات عائد کیے گئے۔ ان میں سے آٹھ میں وہ بری ہو گیا لیکن باقیوں پر ابھی سماعت جاری ہے۔ اس کی ماں اور اس کی بیوی کی زندگی صرف انتظار ہے۔ اس کی ماں کو سب سے زیادہ تکلیف ہوئی ہے۔ انھیں ڈپریشن ہے۔ ساری ساری رات دروازے پر جاکر اپنے بیٹے کو تلاش کرتی ہے۔ برے خواب آتے ہیں۔ ہنسنا، بولنا، کھانا پینا سب بھول گئی ہے۔
سری نگر سے تقریباً 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہم اس وقت جنوبی کشمیر میں انتہا پسندی کا مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے شوپیاں ضلع کے ورپورہ گاؤں میں ہیں۔ شوپیاں میں اس وقت سری نگر اور پلوامہ دونوں جگہ سے کہیں زیادہ برف پڑ رہی ہے۔
پلوامہ سے آگے ورپورہ تک جانے والا راستہ برف کی سفید چادر سے ڈھکا ہے۔ فضا میں ایک برفیلی اداسی اور خاموشی بھی ہے۔ ہمیں اپنی کار کی آواز کے علاوہ دور کی ہوا کے سوا کوئی آواز نہیں سنائی دیتی ہے۔
ورپورہ گاؤں میں رحمت کے گھر پہنچنے کا راستہ برف پرپڑے چنار کے پتوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ 19 سالہ رحمت کی والدہ بیٹے کے پیلٹ گن کی زد میں آنے کے بعد سے ڈپریشن میں ہیں۔
سنہ 2016 کا وقت یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں: 'یہ برہان کے جانے کے فورا بعد کی بات ہے۔ یہاں زبردست احتجاج ہو رہے تھے۔ اسی دوران ایک صبح فوج گاؤں میں آئی اور مظاہرین کے ساتھ انکاؤنٹر کے دوران پیلیٹ گنز بھی چلائی۔ میری نظروں کے سامنے اس کی ایک آنکھ میں پیلیٹ لگی۔ کئی آپریشن کے بعد بڑی مشکل سے اس کی آنکھ قدرے ٹھیک ہوئی ہے۔ لیکن میں شاید ہمیشہ کے لیے بیمار ہو گئی ہوں۔
ورپورہ سے آگے ہمہونا گاؤں میں ہماری ملاقات رسول احمد سے ہوئی۔ جون 2017 میں انھیں 'آزادی' کے لیے جاری ایک مظاہرے میں خطاب کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ رسول احمد کہتے ہیں کہ انتظار ان کی زندگی کا مرکزی لفظ ہے۔ فیرن کے نیچے کنگری لیے کھڑے رسول احمد کہتے ہیں: 'دہائیوں سے یہاں لڑائی اور ہڑتال جاری ہے۔ میرے لڑکے کو گرفتار کیا گیا اس پر 16 مقدمات عائد کیے گئے۔ ان میں سے آٹھ میں وہ بری ہو گیا لیکن باقیوں پر ابھی سماعت جاری ہے۔ اس کی ماں اور اس کی بیوی کی زندگی صرف انتظار ہے۔ اس کی ماں کو سب سے زیادہ تکلیف ہوئی ہے۔ انھیں ڈپریشن ہے۔ ساری ساری رات دروازے پر جاکر اپنے بیٹے کو تلاش کرتی ہے۔ برے خواب آتے ہیں۔ ہنسنا، بولنا، کھانا پینا سب بھول گئی ہے۔

تصویر کے کاپی رائٹAFP/GETTY IMAGES
جموں کشمیر پولیس
وادی میں اس تناؤ نے جموں وکشمیر پولیس کو بھی متاثر کیا ہے۔ جموں وکشمیر پولیس کے بہت سے افسران، جو انتہا پسندوں کے نشانے پر تھے وہ کئی عشروں جاری تشدد کا نشانہ بنے ہیں۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس منیر خان نے کہا کہ اتنے حملوں کے باوجود جموں وکشمیر پولیس پورے جوش و جذبے اور اعتماد کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنے میں مصروف ہے۔
انھوں نے کہا: 'میری اپنی سروس کو تیس سال ہوچکے ہیں۔ اس دوران ہمارے بہت سے ساتھی شہید ہوگئے۔ ہمارے پاس تناؤ کو کم کرنے کے اپنے طریقے ہیں۔ بہت مشکل پوسٹنگ کے بعد جوان کو تھوڑا آرام کرنے کے لیے گھریلو پوسٹنگ دی جاتی ہے۔'
اس رپورٹ کے سلسلے میں انڈین افواج اور جموں و کشمیر انتظامیہ کا نقطۂ نظر جاننے کے لیے بی بی سی نے کشمیر سے لے کر دلی کے نارتھ بلاک تک تمام متعلقہ عہدیداروں کو تفصیلی ای میلز، فون اور پیغامات بھیجے۔ تقریباً 15 دن بعد ملنے والے تحریری جواب میں انڈین فوج نے کہا کہ وہ علاقے میں ہندوستانی شہریوں کی سکیورٹی بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔ ان کے مطابق فوج کی تعداد میں کمی سے وہاں کے عوام غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ہی بھارتی فوج نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ فوج وادی میں جاری تنازعے سے پیدا ہونے والے تناؤ کو کم کرنے کے لیے 'آپریشن سدبھاونا' یعنی خیرسگالی مہم کے تحت متعدد فلاحی پروگرام چلا رہی ہے۔ فوج کی ان کوششوں میں عام لوگوں کے مابین علیحدگی پسندی کے احساس کو دور کرنے اور وادی میں امن برقرار رکھنے سے وابستہ 'گڈول پروگرام' ہے۔ ان پروگراموں میں مقامی عوام کے لیے خصوصی سکول چلانے اور صحت عامہ کے کیمپوں کا انعقاد شامل ہے۔
وادی میں اس تناؤ نے جموں وکشمیر پولیس کو بھی متاثر کیا ہے۔ جموں وکشمیر پولیس کے بہت سے افسران، جو انتہا پسندوں کے نشانے پر تھے وہ کئی عشروں جاری تشدد کا نشانہ بنے ہیں۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس منیر خان نے کہا کہ اتنے حملوں کے باوجود جموں وکشمیر پولیس پورے جوش و جذبے اور اعتماد کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنے میں مصروف ہے۔
انھوں نے کہا: 'میری اپنی سروس کو تیس سال ہوچکے ہیں۔ اس دوران ہمارے بہت سے ساتھی شہید ہوگئے۔ ہمارے پاس تناؤ کو کم کرنے کے اپنے طریقے ہیں۔ بہت مشکل پوسٹنگ کے بعد جوان کو تھوڑا آرام کرنے کے لیے گھریلو پوسٹنگ دی جاتی ہے۔'
اس رپورٹ کے سلسلے میں انڈین افواج اور جموں و کشمیر انتظامیہ کا نقطۂ نظر جاننے کے لیے بی بی سی نے کشمیر سے لے کر دلی کے نارتھ بلاک تک تمام متعلقہ عہدیداروں کو تفصیلی ای میلز، فون اور پیغامات بھیجے۔ تقریباً 15 دن بعد ملنے والے تحریری جواب میں انڈین فوج نے کہا کہ وہ علاقے میں ہندوستانی شہریوں کی سکیورٹی بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔ ان کے مطابق فوج کی تعداد میں کمی سے وہاں کے عوام غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ہی بھارتی فوج نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ فوج وادی میں جاری تنازعے سے پیدا ہونے والے تناؤ کو کم کرنے کے لیے 'آپریشن سدبھاونا' یعنی خیرسگالی مہم کے تحت متعدد فلاحی پروگرام چلا رہی ہے۔ فوج کی ان کوششوں میں عام لوگوں کے مابین علیحدگی پسندی کے احساس کو دور کرنے اور وادی میں امن برقرار رکھنے سے وابستہ 'گڈول پروگرام' ہے۔ ان پروگراموں میں مقامی عوام کے لیے خصوصی سکول چلانے اور صحت عامہ کے کیمپوں کا انعقاد شامل ہے۔
شوپیان سے واپس سری نگر کا سفر بھی وادی پر بچھی اسی برف میں ہوئی جس میں اس کا آغاز کیا تھا۔ بجلی کے تاروں پر ٹھٹھرتے پرندے زمین پر جنت نشان کہی جانے والی اس وادی کی گہری اداسی کے تنہا اور سچے پیغامبر نظر آئے۔ یوں محسوس ہوا کہ وہ برفباری میں فیض کے یہ اشعار گنگنا رہے ہوں۔
بڑا ہے درد کا رشتہ، یہ دل غریب سہی۔۔۔'
Courtesy BBC URDU
No comments
Post a Comment
Comment with in Society Respect....
Thanks