Responsive Ad Slot

test banner

Latest

epicks

بایو چار کیا ہے اور یہ ماحولیات کے لیے کتنا مفید ہے؟

How to get more benefits from Agriculture

مخصوص کیڑے جن گوبر کے ڈھیڑ کو دفن کرنے میں لگے ہیں وہ معمولی گوبر کے ڈھیر نہیں ہیں۔ گوبر کے ڈھیر میں بایوچارسے مالامال مادہ پایا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ سینکنے کے عمل سے اس سے خاص طور پر تارکول نکلتا ہے جسے مویشیوں کے چارے میں شامل کیا جاتا ہے۔

یہ تارکول کی طرح کا سیاہ مادہ دیہی آسٹریلیا کے اس علاقے میں گائے سے خارج ہونے والے میتھین کو کم کرنے اور زیادہ سے زیادہ کاربن کو زمین میں دفن کرنے کے معاملے میں کسی انقلاب سے کم نہیں۔

مویشیوں سے ماحولیات پر ہونے والے اثرات کو کم کرنے میں بایو چار ایک راستہ ہے جس پر کسان کام کر رہے ہیں۔ گائیں اپنے کھانے کو ہضم کرنے کے لیے جب جگالی کرتی ہیں تو ان سے میتھین خارج ہوتی ہے جو کہ ایسی گرین ہاؤس گیس ہے جو کاربن ڈائی آکسائڈ سے 25 گنا زیادہ شدید ہے۔ میتھین کے اثرات ڈکار اور ریاح دونوں کے اخراج میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ جب ان کا کھانا ہضم ہو کر گوبر کی شکل میں باہر آتا ہے تو ان سے بھی کم مقدار میں میتھین گیس خارج ہوتی رہتی ہے۔

آج دنیا میں تقریبا ایک ارب 40 کروڑ مویشی ہیں اور مجموعی طور پر تمام جانوروں سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیس میں سے یہ مویشی 65 فیصد گیس خارج کرتے ہیں۔ گایوں سے میتھین کے اخراج کو کم کرنے کے لیے انھیں ویکسین سے لے کر سمندری گھاس تک دی جاتی ہے۔ اب اس بات میں مزید دلچسپی پائی جاتی ہے کہ آیا گائے کی خوراک میں بایو چار جیسی کسی چیز کو شامل کرکے میتھین کے اخراج کو مزید کم کیا جا سکتا ہے۔




یہ بھربھرا سیاہ مادہ عام طور پر علم جنگلات اور دوسری صنعتوں کے بائی پروڈکٹ کے طور پر حاصل ہوتا ہے۔ یہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب بایوماس یا حیاتی مادہ زیادہ درجۂ حرارت اور کم آکسیجن میں چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں یہ پائیرولائسس نامی عمل سے گزرتا ہے۔ جدید کاشتکاری میں اس کے استعمال سے قبل امیزونیا کے کسان پانچویں صدی قبل مسیح میں اپنے کھیتوں میں اسکا استعمال کرتے تھے تاکہ انھیں زرخيز کالی مٹی حاصل ہو جسے امیزونیا بیسن میں ٹیراپیٹا کہا جاتا ہے۔

گائے کو بایوچار کھلانے کی تاریخ بھی لمبی اور قابل ذکر ہے۔ تیسری صدی قبل مسیح میں کیٹو دی ایلڈر یعنی کیٹو کلاں نے لکھا کہ بیمار مویشیوں کو 'زندہ کوئلے کا تین ٹکڑا' یا تارکول دینا چاہیے۔ بہر حال انھوں نے یہ تجویز بھی دی کہ بیمار گائے کو تین پنٹ یعنی ساڑھے چار پاؤ شراب دینی چاہیے اور اس کے ساتھ دوسرے قابل اعتراض مادے بھی۔

حالیہ مطالعوں سے پتہ چلا ہے کہ کیٹو دی ایلڈر کے نظریے میں دانشوری ہو سکتی ہے۔ سنہ 2012 میں ویت نام میں ہونے والی ایک تحقیق نے یہ پتہ چلایا کہ مویشیوں کے چارے میں نصف سے ایک فیصد بایوچار ملانے سے ان کے میتھین کے اخراج میں دس فیصد سے زیادہ کمی ہوسکتی ہے جبکہ بعض دوسری تحقیقات میں پتہ چلا ہے کہ 17 فیصد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔ امریکہ کے عظیم میدان میں گائے اور بھینس پر ہونے والی تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ ان کے چارے میں بایوچار ملانے سے میتھین کے اخراج میں 9۔5 سے 18۔4 فیصد تک کمی ہوتی ہے۔ اب جبکہ مویشیوں سے خارج ہونے والے میتھین گرین ہاؤس گیس کے اخراج کا 90 فیصد ہیں تو ایسے میں یہ کمی قابل قدر ہے۔

بہر حال کس طرح بایوچار سے یہ کمی واقع ہوتی ہے ابھی اسے بہتر ڈھنگ سے نہیں سمجھا جا سکا ہے۔ ایک طریقہ جو سمجھ آتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ میتھین کے مولیکیولز کو 'جذب' کر لیتے ہیں یا پھر اسے وہیں روکے رہتے ہیں اور خارج نہیں ہونے دیتے۔ دوسرا نظریہ یہ ہے بایوچار گایے کے مائیکروبایوم میں ایسے جراثیم پیدا کرتا ہے جو کہ اچھی طرح سے ہاضمے کا سبب ہوتے ہیں۔ ہوشچولے گیزنہم یونیورسٹی کی کلاڈیا کیمّمن کا کہنا ہے کہ بایوچار کس طرح میتھین گیس کے اخراج کو کم کرتا ہے یا کس حد تک کم کرتا ہے کو جاننے کے لیے مزید مطالعے کی ضرورت ہے۔

مینجیمپ کے پاس والے فارم میں مویشیوں کو پالنے والے دو پو بایوچار پر ہونے والے مطالعے میں کئی برسو‎ں سے شامل ہیں۔ انھیں بایوچار مقامی سیلیکان پیدا کرنے والے سے بائی پروڈکٹ کے طور پر حاصل ہوتا ہے۔ وہ بنیادی طور پر اس کی جانب میتھین کے اخراج کو کم کرنے کے لیے نہیں بلکہ زمین میں زیادہ کاربن ضبط کرنے کے متوجہ ہوئے تھے۔ اس کا دوہرا نتیجہ کاربن کو جذب کرنے اور زمین کو زخیز بنانے کے طور پر سامنے آيا۔

میلبرن یونیورسٹی میں مٹی کے سائنس کی لکچرر بھاونا بھٹ کا کہنا ہے کہ 'بایوچار کے انتہائی جذب کرنے والی فطرت اور اس کی سطح کی اونچائی کے سبب یہ زمین میں زیادہ پانی روکنے کی اہلیت پیدا کرتا ہے۔۔۔ بایوچار میں موجود سوراخوں کے نیٹورک سے زمین کو مائیکرو آرگینزم کو رہنے کی جگہ ملتی ہے۔ اس سے مٹی میں موجود مائیکروبس میں تنوع پیدا ہوتا ہے۔'

لیکن شروع میں ڈو پو یہ سوچا کرتے تھے کہ وہ اپنے چراگاہ میں کس طرح بایوچار لا سکتے ہیں۔ اس کے لیے عام طور پر بڑی اور مہنگی مشینیں چاہیے ہوتی ہیں۔ انھوں نے کہا: 'میں نے سوچا کہ ہمارے پاس فارمنگ کے بڑے آلات نہیں ہیں اور میرے دروازے بھی زیادہ کشادہ نہیں ہیں۔


ڈو پو سوچا کرتے تھے کہ کیا وہ اپنے کھیتوں میں بغیر کسی محنت کے اپنی گایوں کے گلوں سے بایوچار پہنچوا سکتے ہیں؟ اگر چہ وہ دن بھر ان چراگاہوں میں گھومتی پھرتی رہتی تھی اور اس کے گوبر ہر طرف بکھرے ہوتے تھے۔ گویا یہ ایک خودکار ڈلیوری کے نظام کی طرح تھا۔


لیکن بایوچار سے بھرپور گوبر کے ان کی زمین پر پھیل جانے کے بعد بھی مزید چیلنجز تھے کہ اب یہ گوبر کھیت میں کیسے جائيں گے۔


سخت آسٹریلین خطے میں گائے کی چپڑیاں بے محل ہیں۔ ابتدا میں یورپ سے آنے والوں نے یہاں گائے، بھیڑیں اور دوسرے مویشی متعارف کرائے۔ کنگارو اور دوسرے دیسی جانور کم مقدار میں فضلے خارج کرتے تھے۔ اس کی جگہ وہ نیریاں کرتے جس کے ساتھ مقامی کیڑوں نے کام کرنے کا طریقہ ایجاد کر لیا تھا۔ لیکن یہ کیڑے گائے کے رطوبت والے نرم گوبر کو نظر انداز کر دیتے تھے۔


ڈو پو کو بووائن کیڑے تلاش کرنے پڑے جنھیں آسٹریلیا میں پہلی بار سنہ 1960 کی دہائی میں متعارف کرایا گیا تھال لیکن یہ نسبتا نادر ہی ہیں۔ لیکن ایک ماہر حشریات سے مشورہ پانے کے بعد ڈو پو نے جانچ شروع کی کہ آیا بایوچار کھلانے سے گوبر والے کیڑے کو نقصان تو نہیں پہنچ رہا اور اس تحقیق میں انھیں نیو ساؤتھ ویلز کی یونیورسٹی میں محقق سٹیفن جوزف کا ساتھ ملا۔




بایو چار اور گڑ کو ملا کر دیے جانے والے چارے کو ان کی گائیں شوق سے کھاتیں اور گوبر کرتی اور پھر کیڑے اپنا کام کرتے۔ اس کے بعد بووائن کیڑے نے گائے کے گوبر پر جوڑوں میں کام کرنا شروع کیا۔ نر کیڑا گوبر مادہ کیڑے کے پاس لاتا جو اسے زمین میں سرنگ کھود کر غرق کر دیتی۔ ہر بار جب کوئی کیڑا سرنگ میں جاتا ہے تو وہ اپنے ساتھ نئی مٹی لاتا ہے جس میں پھوسپھور کی زیادہ مقدار ہوتی ہے جو کہ قدرتی طور پر زمین کو زرخیز بناتا ہے۔

ڈو کے فارم پر تین سال پر محیط تحقیق میں پتہ چلا کہ وہاں مجموعی آرگینک کاربن میں اضافہ ہوا ہے اور پہلی بار جب اس کو شروع کیا گیا اس وقت سے یہاں کی مٹی کی زرخیزی میں اضافہ ہوا ہے۔ تحقیق میں یہ بھی پتہ چلا کہ اس سے مٹی میں پانی کو جذب کرنے اور کاربن کو روکنے کی زیادہ صلاحیت پیدا ہوئی۔ مجموعی طور پر ڈو پو کو اپنی زمین کی کوالٹی میں 'چوگنا بہتری' نظر آئی کیونکہ یہ معاشی طور پر قابل عمل اور فائدہ مند تھا۔ پو نے کہا: 'ہم مٹی کی مثبت طریقے سے ری انجینیئرنگ میں لگے ہیں تاکہ دنیا کو دیر پا فوائد حاصل ہوں۔'

مغربی آسٹریلیا کے جنوب مغربی علاقے میں قدرتی وسائل کے انتظام میں تعاون کرنے والے اور منافع نہ کمانے والی تنظیم وارن کیچمنٹ کونسل کی اگزیکٹو آفیسر کیتھی ڈاسن نے کہا کہ 'بغیر سرمایہ لگائے یہ زمین میں بایوچار پہنچانے کا بہت ہی اختراعی طریقہ ہے۔'

بایوچار مخصوص طور پر کاربن کی مستحکم شکل ہے جو کہ بایو ماس سے مختلف ہے۔ بایو ماس کو زمین پر سڑنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے جو کہ کاربن ڈائی آکسائڈ چھوڑتا رہتا ہے۔ ایک بار جب بایوچار زمین اندر پہنچا دیا جاتا ہے تو وہ سینکڑوں سال تک وہاں رہتا ہے۔ بھٹ کا کہنا ہے کہ زمین میں بایوچار کی موجودگی سے یہ کہا جاتا ہے کہ زمین میں آرگینک کاربن بھی مستحکم رہتا اور اس کا نتیجہ زمین میں کاربن کا زیادہ جذب ہونا ہے۔ اس کوئلے جیسے مادے کو زمین میں دفن کرنے کے خیال نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے ایک حوصلہ افزا طریقہ ہے لیکن اس کے اثرات کو محسوس کرنے کے لیے جس مقدار پر اس کی ضرورت ہے وہ بہت وسیع ہے۔

لیکن اس مادے کی دوسرے ماحولیاتی فوائد دیکھ کر کیا دوسرے کسان بھی بایوچار اور گوبر کے کیڑے والے نظام کو اپنائيں گے؟ اس سلسلے میں ابھی ہچکچاہٹ ہے اور یہ سوال بھی ہے کہ یہ کسانوں کے لیے کس قدر کم خرچ ہوگا۔ زمین کی زرخیزی بھی اس بات پر منحصرہے کہ آپ کس قسم کے بایوچار کا استعمال کر رہے ہیں۔

ڈو پو کا خیال ہے کہ اس کے متعلق قانون اور مالی کریڈٹ جیسی مراعات سے اس قسم کی کاربن فارمنگ کی حوصلہ افزا‏ئی کرنے میں مدد ملے گی۔ انھیں امید ہے کہ جو طریقہ انھیں تیار کیا ہے اسے زیادہ سے زیادہ کسان بروقت اپنائیں گے۔

اگر چہ مویشیوں کے پالنے کے ماحولیات پر بڑے اثرات پڑے ہیں تاہم یہ تقریبا 13 کروڑ آبادی کے لیے گزربسر کا ذریعہ ہے۔ بایوچار اور گوبرکے کیڑے کا غیر ممکنہ مرکب ماحولیات کے بحران کو کم کرنے میں کسانوں کے تعاون کے ساتھ زیادہ زرخیز مٹی کے فوائد حاصل کرنے کا بھی طریقہ ہے۔

No comments

Post a Comment

Comment with in Society Respect....

Thanks

Don't Miss
© all rights reserved
made with by Sajid Sarwar Sajid