
اسلام آباد سے صرف دو گھنٹے کی مسافت طے کرنے پر آپ پشاور میں ایسے مقامات کی سیر کر سکتے ہیں جو آپ کو ٹائم مشین کے ذریعے ایک سو سال پیچھے یعنی ماضی میں لے جا سکتے ہیں۔
قلعہ بالا حصار، اسلامیہ کالج یونیورسٹی کی شاندار عمارت، اندرون شہر لکڑی کی خوبصورت کندہ کاری سے مزین سیٹھی ہاؤس کی عمارت، قصہ خوانی کے بالا خانے، بالی ووڈ کے لیجنڈ اداکار دلیپ کمار اور راج کپور کی خستہ حال رہائشیں اور تاریخی بازاروں میں خریداری سے آپ صرف ایک دن میں خوب مزے لے سکتے ہیں۔
اگر ٹریفک کی تکلیف یا ’خجل خواری‘ کو ایک طرف رکھ دیں تو پشاور کا ایک دن کا دورہ آپ انتہائی یادگار بنا سکتے ہیں جس میں آپ تاریخی مقامات کے علاوہ پشاور نمک منڈی کے مٹن تکے اور کڑاہی کھا سکتے ہیں۔

باب خیبر
اگر آپ اپنے دورے کا آغاز پشاور سے کوئی پانچ دس منٹ کی مسافت پر واقع باب خیبر سے کریں تو مناسب ہوگا۔ اس کی ایک اہم وجہ تو یہ ہے کہ شام کو آپ ایک ایسے بازار جا سکتے ہیں جہاں کھانا تو لاجواب ہے ہی وہاں دہکتے کوئلوں پر پگھلتے گوشت اور چربی کی بھینی بھینی خوشبو آپ کو کہیں جانے نہیں دیتی۔
پہلے ذکر کرتے ہیں باب خیبر کا جو پاکستان اور باہر ممالک میں خیبر پختونخوا کی پہچان سمجھا جاتا ہے۔
ماضی میں درہ خیبر کے نام سے مشہور ضلع خیبر میں جمرود کے مقام پر واقع باب خیبر ایک ایسی علامت ہے جسے دیکھ کر آپ کو ایسا لگے گا کہ جیسے آپ نے اس شاہراہ کو مسخر کر دیا ہے جو پاکستان کو افغانستان سے ملاتی ہے اور جس راستے سے ماضی میں حملہ آور اور حکمران گزر کر آتے رہے۔
یہ باب خیبر 1963 میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس پر ان تمام حملہ آوروں اور حکمرانوں کے نام تحریر کیے گئے ہیں جو افغانستان سے آئے تھے۔ جمرود سے کوئی 33 کلومیٹر دور طور خم کا مقام ہے جہاں پاک افغان سرحد واقع ہے۔
اس مقام پر پہنچ کر جب آپ نے باب خیبر دیکھ لیا تو سمجھیں آپ نے ضلع خیبر کا بڑا حصہ دیکھ لیا۔ یہاں موجود خاصہ دار فورس اور لیویز اہلکار با اخلاق اور سیاحوں کی مدد کو ہر دم تیار رہتے ہیں۔

اسلامیہ کالج یونیورسٹی
جمرود سے واپس پشاور آئیں تو چند کلومیٹر کے فاصلے پر آپ کو بائیں ہاتھ پر خوبصورت عمارت نظر آئے گی یہ شاندار تعلیمی درس گاہ اسلامیہ کالج یونیورسٹی کی عالیشان عمارت ہے۔
جمرود روڈ سے عمارت کا نظارہ ایسا جیسے آپ ایک ہزار روپے کا رنگین نوٹ دیکھ رہے ہوں۔ جی ہاں ایک ہزار روپے کا نوٹ نیلا ہے جس پر اسلامیہ کالج کی عمارت کی تصویر ہے لیکن اسلامیہ کالج کی عمارت سرخ اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہے اور عمارت کے سامنے وسیع و عریض سر سبز میدان اور اونچے درخت ہیں۔
اسلامیہ کالج کی عمارت 1913 میں پشاور میں تعمیر کی گئی اور اس کی بنیاد خان عبدالقیوم اور سر جارج روز کیپل نے رکھی تھی۔
اس درسگاہ کی تعمیر علی گڑھ سے متاثر ہو کر رکھی گئی۔
ہوا کچھ یوں کہ جب خان عبدالقیوم علی گڑھ یونیورسٹی کے دورے پر جب گئے تو وہاں انھیں پشتون طلبا نے رہائش کے مسائل سے آگاہ کیا جس پر انھوں نے پشاور میں علی گڑھ یونیورسٹی کی طرز پر ایک تعلیمی ادارہ بنانے کا فیصلہ کیا۔
اس ادارے کی تعمیر کے لیے مختلف لوگوں نے عطیات دیے۔ ان میں بی بی گل نامی ایک بیوہ نے اپنے سارے زیورات عطیہ کر دیے تھے اور ان کی خواہش تھی کہ اس درسگاہ میں بچیوں کو بھی تعلیم فراہم کی جائے۔ ان کی خواہش اس وقت تو پوری نہیں ہو سکی لیکن لگ بھگ پچانوے سال بعد یعنی 2007 میں جب کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا تو اس وقت اس میں لڑکیوں کو تعلیم فراہم کرنے کا سلسلہ شروع ہو سکا۔
اسلامیہ کالج کے بڑے ہال کلاس رومز بھی باقاعدہ ایک طریقے سے تعمیر کیے گئے ہیں اس عمارت میں چھتوں کی اونچائی اتنی ہے کہ یہ گرمیوں میں سرد اور سردیوں میں گرم رہتے ہیں۔
برطانوی دور میں تعمیر کی گئی تاریخی اسلامیہ کالج یونیورسٹی کی عمارت تین سو ایکڑ رقبے پر محیط ہے۔ یہ عمارت مشرقی اور مغربی تعمیراتی آرٹ کا ایک شاندار نمونہ ہے۔ اس عمارت کی تعمیر میں گنبد محرابیں اور طاق مقامی طرز تعمیر کی نشانیاں ہیں۔ اس عمارت میں چلتے پھرتے آپ کو ایسا ہی محسوس ہوگا جیسے تحریک پاکستان کے اہم اور سرگرم طالبعلم آج بھی علم کی پیاس بجھانے یہاں موجود ہیں۔

سفید ماربل مسجد
اسلامیہ کالج کی عمارت سے منسلک واقع سفید سنگر مرمر کی مسجد کو انیسویں صدی کے آغاز میں جدود علوم کا مرکز سمجھاجاتا تھا۔ پشاور میں قائم مسجد مہابت خان کے بعد مغل دور میں تعمیر ہونے والی یہ سفید مسجد سیاحوں کو اپنی جانب کھینچ لاتی ہے۔ یہ مسجد مغل اور برطانوی دور کے طرز تعمیر کا شاندار نمونہ ہے۔
آپ اسلامیہ کالج کے ساتھ پشاور یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی ادارے بھی واقع ہیں۔ اس یونیورسٹی سڑک سے سیدھا اندر شہر میں چوک یادگار پہنچ جائیے۔
قلعہ بالا حصار
لیکن ٹھہریں۔۔۔ اندرون شہر جانے سے قبل آپ کو راستے میں دائیں جانب ایک بڑا قلعہ نظر آئے گا یہ ہے قلعہ بالا حصار اور اس کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی پشاور شہر کی اپنی تاریخ ہے۔
مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے اپنی خود نوشت میں اس کا ذکر کیا ہے جبکہ افغانستان کے درانی خاندان کے دور میں یہ قلعہ بالا حصار گرمیوں میں ان کا مرکز ہوتا تھا۔ رنجیت سنگھ کے دور میں سکھوں نے اس قلعے کے طور پر استعمال کیا۔
قلعہ بالا حصار پندرہ ایکڑ سے زیادہ رقبے پر پھیلا ہوا ہے لیکن اس کی بھاری بھر کم دوہری دیواریں ہیں اور اس کا اندرونی رقبہ دس ایکڑ تک بتایا جاتا ہے جبکہ ان کی اونچائی پچانوے میٹر ہے۔
ایک افسوس ناک بات یہ ہے کہ آپ اس قلعے میں کُھلے عام نہیں جا سکتے آج کل یہ فرنٹیئر کور کی تحویل میں ہے اور اندر جانے کے لیے آپ کو باقاعدہ اجازت نامہ درکار ہے۔ پشاور ہائی کورٹ میں ایک درخواست جمع کرائی گئی تھی کہ یہ قلعہ عام لوگوں کے لیے کھولا جائے۔ انتظار کی گھڑیاں ابھی ختم نہیں ہوئیں۔
یہ تجویز ابھی بھی زیر غور ہے۔
اندرون شہر پہنچنے میں آپ کو وقت لگے گا، ٹریفک زیادہ ہو سکتی ہے لیکن فکر نہ کریں راستہ مل ہی جاتا ہے۔ یہ اندرون پشاور شہر ہے اور کاروباری مرکز بھی ہے۔ چوک یادگار سے پیدل گھنٹہ گھر اور فوڈ سٹریٹ سے ہوتے ہوئے سیدھا محلہ سیٹھیاں پہنچیں۔

سیٹھی ہاؤس
اندرون پشاور شہر سیٹھی خاندان کا ایک مکان محکمہ آثار قدیمہ نے اپنی تحویل میں لے کر اس مکان کو سیاحوں کے لیے کھول دیا ہے۔
اس محلے میں سیٹھی خاندان کے سات مکان ہیں جو تہہ خانوں کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس مکان میں شاندار لکڑی کے کام کے علاوہ رنگیں شیشوں سے مزین طاق اور کھڑکیاں ہیں۔
صحن میں فوارہ لگا ہوا ہے جبکہ کمروں میں لکڑی کا کام بہت خوب لگتا ہے۔

سیٹھی خاندان اس علاقے میں ایک امیر ترین خاندان تھا اور ان کی تجارت روس تک پھیلی ہوئی تھی۔
اس مکان کے بارے میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ تہہ خانوں میں روسی کرنسی کی بوریاں بھری پڑی تھیں اور جب روس نے اپنی کرنسی منسوخ کر دی گئی تھی اور یہ بوریوں میں بھرے نوٹ ضائع ہو گئے تھے۔
محکمہ آثار قدیمہ نے سیٹھی ہاؤس کو اپنی تحویل میں لے کر اسے ایک عجائب گھر کا درجہ دیا ہے۔ اس مکان کے دورے کے دوران ہر دروازے اور ہر کھڑکی سے گزرتے ہوئے آپ کے سامنے ماضی کے جھروکے کھلتے جائیں گے ۔
سیٹھی ہاؤس فن تعمیر کا ایک شاندار نمونہ ہے۔ سیٹھی ہاؤس انیسویں صدی کے آخر میں کوئی پینتیس سالوں میں مکمل کیا گیا تھا۔

قصہ خوانی بازار
پاکستان بننے سے پہلے ہندوستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کے لیے پشاور ایک بڑا مرکز رہا ہے۔ یہاں آکر قافلے رکتے، چند روز قیام کرتے اور پھر اپنی منزل کی جانب روانہ ہو جاتے۔
ان قافلوں کے ڈیرے تو مختلف مقامات پر ہوتے تھے لیکن سب کے بیٹھنے کا مرکز قصہ ِخوانی بازار ہوتا جہاں بالا خانے اور مسافر خانے قائم تھے۔ یہ قصہ گو تاجروں اور دیگر علاقوں سے آنے والے افراد کو مختلف قصے سناتے اور ان کے دل کو موہ لیتے۔
آج بھی اس بازار میں بالا خانے موجود ہیں جہاں آپ بہترین قہوہ پی سکتے ہیں۔ البتہ کوئی قصہ آپ کو خود ہی چھیڑنا پڑے گا۔ قصہ خوانی بازار کے قہوے کا تیکھا اور ہلکا میٹھا ذائقہ شائد پاکستان کے کسی اور شہر میں آپ کو نہیں ملے گا۔ روایتی چینکوں اور پیالیوں میں آج بھی بڑی چینک آپ کو بیس سے تیس روپے میں مل جاتی ہے۔
قصہ خوانی بازار میں قراقلی ٹوپی کے علاوہ اب جدید دور کی روائتی ٹوپیاں بھی خریدی جاسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ پیتل کے ظروف اور دیگر برتن آج بھی یہاں فروخت کیے جاتے ہیں اور ان کی قلعی بھی کی جاتی ہے۔

تصویر کے کاپی رائٹHIDAYAT KHANImage captionکپور ہاؤس
پشاور کا بالی ووڈ
قصہ خوانی بازار کے ساتھ ہی بالی ووڈ کے عظیم اداکار دلیپ کمار اور راج کپور کے مکانات بھی واقع ہیں۔
یہ مکانات اب خستہ حال ہیں۔
صوبائی حکومتوں نے کوشش کی کہ ان مکانات کو تحویل میں لے کر یہ سیاحوں کے لیے کھولے جا سکیں۔ حکومت اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ دلیپ کمار ایک دو مرتبہ پشاور کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔
ان کا بچپن یہیں ڈھکی نعلبندی میں گزرا ہے اور وہ آج بھی اپنے علاقے کو یاد کرتے ہیں۔ پشاور میں ہر سال دلیپ کمار کی سالگرہ منائی جاتی ہے اور اس موقع پر دلیپ کمار یا ان کی اہلیہ سائرہ بانو سے ٹیلیفونک گفتگو بھی ہوتی ہے۔
راج کپور کے والد پرتھوی راج کا مکان بھی یہیں واقع ہے۔ راج کپور کے بیٹے پوتے پوتیاں آج بھی ان علاقوں کو یاد کرتے ہیں۔
یہ مکان اندرون پشاور کی تنگ گلیوں میں واقع ہیں۔ اس لیے یہاں آپ کو پیدل ہی چلنا پڑے گا۔ بالی ووڈ کے ایک اور اداکار شاہ رخ خان کے والد کا مکان بھی یہیں قصہ خوانی بازار کے قریب واقع ہے جہاں اب ان کے رشتہ دار رہتے ہیں۔ بالی ووڈ فلم انڈسٹری میں ستر سے زیادہ ایسے اداکار، گلوکار، صدا کار اور دیگر فنکار ہیں جن کا تعلق پشاور اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں سے رہا ہے۔

نمک منڈی
دن بھر گھومنے پھرنے کے بعد بھوک تو خوب لگتی ہے۔ تو اب ذکر کرتے ہیں اس بازار کا جہاں بڑے اہتمام اور خشوع و خضوع کے ساتھ پیٹ پوجا کے لیے رخ کیا جاتا ہے۔
اس وقت تک شام ہونے کو ہوگی اور آپ کو بھوک بھی ستا رہی ہو گی۔ اس لیے نمک منڈی ایک ایسی جگہ ہے جہاں دور دراز سے لوگ پوجا جی ہاں پیٹ پوجا کے لیے آتے ہیں۔ نمک منڈی سے نمک کا کوئی زیادہ تعلق نہیں ہے ہاں اتنا ضرور ہے کہ یہاں کھانے صرف نمک میں تیار ہوتے ہیں باقی مصالحوں کا استعمال یہاں کھانوں میں نہیں ہوتا۔
نمک منڈی میں چرسی کے مٹن تکے اور کڑاہی اگر آپ نے نہیں کھائی توآپ پشاور آئے ہی نہیں، اس لیے شام کے وقت جب سائے ڈھل جائیں تو دنبے کے گوشت کے تکوں اور کڑاہی کا آرڈر ضرور دیجیے۔
گوشت آپ اپنی پسند کا بتائیں اور اگر آپ دو لوگ ہیں تو دو کلو خشک تکہ آپ آسانی سے کھا سکتے ہیں۔ اس کے بعد قہوہ پینے سے سب کچھ ہضم ہو جائے گا اور آپ خوشی خوشی واپس اسلام آباد روانہ ہو سکتے ہیں۔
courtesy : BBC URDU
No comments
Post a Comment
Comment with in Society Respect....
Thanks