کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ کسی کو مرنے کے بعد سزا سنائی گئی ہو اور اس پر عملدرآمد کے لیے اس کی قبر جیل کے اندر بنا دی گئی ہو؟
جی ہاں، ایسا ہی ایک واقعہ آج سے 90 سال پہلے برطانوی دور حکومت میں اس وقت کے صوبہ سرحد کے ضلع بنوں کے علاقے سپینہ تنگی میں پیش آیا تھا۔
24 اگست 1930 کو برطانوی اہلکاروں نے ایک احتجاجی مظاہرے پر فائرنگ کی تھی جس کے باعث 80 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے اور لوگوں کو بڑی تعداد میں گرفتار بھی کیا گیا تھا۔
واقعہ کیسے پیش آیا؟
برطانوی راج کے دوران 1930 میں تشدد کے تین بڑے واقعے پیش آئے جو چند ماہ کے وقفے سے پیش آئے۔ ان میں ایک پشاور کے تاریخی بازار قصہ خوانی میں پیش آیا تھا جبکہ ضلع مردان کے علاقے ٹکر میں اسی طرح کے پرتشدد واقعے میں متعدد افراد کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ بنوں کا مذکورہ بالا واقعہ ہے جس کی تفصیل ذیل درج بیان کریں گے۔
ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ خیبر پختونخوا میں شعبہ تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر اسفندیار درانی نے برطانوی دور میں مزاحمتی تحریکوں پر تحقیق کی ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ سپینہ تنگی واقعہ ان تحریکوں کا ہی ایک حصہ تھی جو برطانوی راج کے خلاف شروع کی گئی تھیں اور شمال مغربی سرحدی صوبے کے مختلف علاقوں سے یہ تحریکیں 1929 کے بعد شروع ہو گئی تھیں۔

قاضی فضل قادر کی قبر کو سنہ 2004 میں آزادی ملی جب جیل کی پرانی عمارت ڈھا کر وہاں پارک بنا دیا گیا
انھوں نے کہا کہ قصہ خوانی کے واقعہ کے بعد خدائی خدمتگار تحریک کی جانب سے مزاحمت کی گئی اور ان کی حمایت میں پشاور شہر میں فرنٹیئر کانگریس کمیٹی، فرنٹیئر خلافت کمیٹی اور نوجوان بھارت سبھا کے ذیلی تنظیم نوجوانان سرحد کے لوگ شامل تھے۔
مذکورہ دن بنوں کے قریب سپینہ تنگی میں بڑی تعداد میں لوگ جلسہ گاہ میں موجود تھے۔
مظاہروں کا یہ سلسلہ صوبے کے مختلف علاقوں میں جاری تھا اور لوگ خدائی خدمتگار تحریک کے بینر تلے احتجاج کرہے تھے۔
سپینہ تنگی سے پہلے کرک میں ایک مظاہرہ کیا گیا اور اس کے بعد سپینہ تنگی میں 24 اگست کو مظاہرے کا اعلان کیا گیا تھا۔
انگریز سرکار کی جانب سے ان مظاہروں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اس احتجاج کی قیات مقامی رہنما قاضی فضل قادر کر رہے تھے۔
ضلع بنوں سے تعلق رکھنے والے عبدالناصر خان نے بتایا کہ سپینہ تنگی سے پہلے اس علاقے کے دیگر مقامات پر بھی جلسے منعقد کیے گئے تھے اور وہ سب پر امن رہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ سپینہ تنگی میں بھی لوگ پر امن تھے اور ان سے اسلحہ مقامی انتظامیہ نے لے لیا تھا۔

مقامی افراد وہ جگہ دکھا رہے ہیں جہاں سپینہ تنگی کے جلسے کے لیے سٹیج تیار کیا گیا تھا
قاضی فضل قادر اس علاقے کی ایک معروف شخصیت تھے اور ان کے پیروکار صرف بنوں ہی نہیں قریبی علاقوں میں بھی تھے۔
مظاہرے کے دوران انگریز کیپٹن ایشرافٹ وہاں پہنچے اور سٹیج پر انھوں نے قاضی فضل قادر سے بات چیت شروع کی، جس سے دونوں میں تلخ کلامی ہوئی اور کیپٹن ایشرافٹ نے ان پر فائر کردیا۔
کہا جاتا ہے کہ ایک نوجوان احمد خان چندن وہاں موجود تھے اور ان کے پاس درانتی تھی، جس سے انھوں نے انگریز کیپٹن پر حملہ کیا تھا، جس کے بعد سرکار کی جانب سے اندھا دھند فائرنگ کی گئی جس سے بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
اس کے بعد وہاں موجود لوگ اشتعال میں آئے لیکن لوگوں کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا اس لیے سرکار کا کوئی نقصان اس وقت نہیں ہوا تھا۔
قاضی فضل قادر کو زخمی حالت میں گھسیٹ کر لے جایا گیا اور ڈومیل پولیس تھانے میں وہ دم توڑ گئے تھے۔ مگر برطانوی اہلکار اتنے غصے تھے کہ ان کی میت ورثا کے حوالے نہیں کی گئی بلکہ جیل کے اندر انھیں دفن کر دیا گیا تھا۔
اس کے بعد ان پر مقدمہ چلایا گیا اور انھیں قید کی سزا سنائی گئی۔ مرنے کے بعد کسی کو قید کی سزا سنانے کا یہ انوکھا واقعہ تھا۔

قاضی فضل قادر کے خلاف درج ہونے والی ایف آئی آر کا عکس
عبدالناصر خان نے بتایا کہ اس سزا پر عمل درآمد کے لیے ان کی قبر جیل کے اندر بنائی گئی۔
اس بارے میں ایک اطلاع یہ ہے کہ یہ قبر جیل میں چکی کے اندر بنائی گئی اور اس کے ارد گرد زنجیریں لگائی گئی تھیں تاکہ یہ ظاہر ہو کہ یہ قیدی ہے۔
مگر برٹش راج کے دوران یہ ایسا انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ پروفیسر اسفندیار کے مطابق خیبر میں ایک درخت کو زنجیروں میں قید کرنا اور مہمند میں ایک دروازے کو زنجیروں میں جکڑ کر رکھنے کے واقعات بھی برطانوی دور میں پیش آئے تھے۔
اس واقعہ میں ہلاکتوں کے حوالے سے مختلف بیانات سامنے آئے ہیں جن میں ایک یہ کہا جاتا ہے کہ اس واقعہ میں 70 سے 80 افراد ہلاک اور 50 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے جبکہ بعض اطلاعات کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 200 کے قریب تھی۔
سینٹرل جیل بنوں شہر کے اندر واقع ہے اور اس کی عمارت بھی بہت قدیم تھی جس کے بعد جمعیت علما اسلام سے تعلق رکھنے والے سابق وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا اکرم خان درانی کے دور میں 2004 میں بنوں جیل کی نئی عمارت تعمیر کی گئی تھی۔
پرانی جیل منہدم کرکے وہاں اب قاضی فضل قادر پارک بنا دیا گیا ہے اور ان کی قبر کو ماربل سے پختہ کیا گیا ہے، لیکن قبر کے گرد زنجیریں اب بھی موجود ہیں۔
بشکریہ : بی بی سی اردو
No comments
Post a Comment
Comment with in Society Respect....
Thanks